سرینگر: وادی کشمیر میں جانوروں (کتوں) کی پیدائش کے کنٹرول کے لئے نہ صرف وسیع پیمانے پر اقدام کئے جا رہے ہیں، بلکہ اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدام کی رفتار بھی تیز ہے۔
متعلقہ حکام کے مطابق کشمیر میں موجود کتوں کے کُل تعداد کے 10 فیصد حصے کی اب تک نسبندی کی گئی ہے۔سرینگر میونسپل کارپوریشن کے کمشنر اطہر عامر خان کا کہنا ہے کہ کتوں کی نسبندی کا عمل گذشتہ 3 ماہ سے مسلسل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'گذشتہ تین مہینوں سے کتوں کی نسبندی کا کام مسلسل جاری ہے اور اب تک 8 سے 9 وارڈوں میں یہ کام مکمل بھی کیا گیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت کتوں کی نسبندی کا یہ عمل 10 سے 20 فیصد تک مکمل کیا گیا ہے، تاہم اس کام کو مکمل کرنے میں اگلا سال بھی لگ سکتا ہے۔
موصوف کمشنر نے کہا کہ کتوں کی نہ صرف نسبندی کی جاتی ہے بلکہ ان کو ویکسین بھی کئے جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ موسم سرما کے پیش نظر اس کام میں دشواریاں آسکتی ہیں، تاہم یہ ایک جاری عمل ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یکم اپریل 2022 سے 31 مارچ 2023 تک گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر اور شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال سرینگر کے اینٹی ریبیز کلینک میں جانوروں (کتؤں) کے کاٹنے کے 6 ہزار 8 سو 55 کیسوں کا علاج ہوا ہے، جن میں سے 4 ہزار 9 سو 12 کیسز صرف سرینگر کے تھے۔
مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 – 22 میں یہ تعداد 5 ہزار 6 سو 29 تھی جبکہ سال 2020 – 21 میں یہ تعداد صرف 4 سو 79 تھی۔
کشمیر میں جانوروں (کتوں) کی پیدائش کے کنٹرول کے لئے سال 2013 میں سرینگر میں پہلا سینٹر قائم کیا گیا تھا، جہاں روازنہ 5 سے 10 کتوں کی نسبندی کی جاتی تھی۔دوسرا سینٹر ٹینگ پورہ علاقے میں زائد از 7 کنال اراضی پر قائم کیا گیا، جہاں روزانہ 60 سے 70 کتوں کی نسبندی کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: |
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی کشمیر میں گذشتہ 6 برسوں کے دوران جانوروں(کتوں) کے کاٹنے کے 37 ہزار 4 سو 67 واقعات پیش آئے ہیں، جس کا 72 فیصد حصہ یعنی 26 ہزار 7 سو 42 واقعے سرینگر میں ہی پیش آئے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق کشمیر میں ہر سال کتوں کے کاٹنے کے 5 سے 6 ہزار کیس درج ہوتے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عمر رسیدہ افراد کی ہوتی ہے۔حکام نے اس عمل کو مزید موثر و کار آمد بنانے کے لئے کتوں کو پکڑنے اور نسبندی کے بعد واپس اپنے اپنے علاقوں میں چھوڑنے کے لئے یہ کام بیرونی ایجنسی کو سونپا ہے، جو اس کے لئے افرادی قوت و مہارت فراہم کر رہی ہے۔
(یو این آئی)