کشمیر ویلی اسٹیشنز اینڈ بوک سیلرز ویلفیئر ایسوسیایشن کے صدر ارشاد احمد وانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "سرینگر شہر میں تقریباً 1000 اسٹیشنری کی دکانیں تھی جو کم ہو کر اب تقریباً 500 رہ گئیں ہیں۔ لوگ اس کام کو چھوڑ رہے ہیں اس کی کئی وجوہات ہے۔
پہلی تو پانچ اگست سنہ 2019 کے بعد یہاں عائد پابندیاں اور قدرتی آفات نے اس کاروبار کو نقصان پہنچایا وہیں انتظامیہ کی لاپروائی بھی اس میں اہم رول ادا کیا۔'
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "سرکاری اسکولوں میں تو سرکار خود طلباء کو کتابیں اور دیگر سٹیشنری کا سامان مہیا کرتی ہے۔ جس وجہ سے ہمارا بزنس صرف نجی اسکولوں پر منحصر رہ گیا تھا۔ لیکن اب یہ نجی اسکول بھی اپنے طلباء کو خود ہی اپنا سامان فراہم کر تے ہیں یا پھر کسی مخصوص دکاندار سے اشتراک کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔'
وانی نے کہا کہ' ہم پر بھی بینکوں کے قرض ہے، حالات خراب ہے۔ مزید آن لائن کلاسس کی وجہ سے ہمارے کام میں 90 فیصد کا نقصان ہوا ہے۔ کئی پبلیشر بھی اسکول سے رابطہ میں آکر کتابیں بیچتے ہیں۔ آپ بتاؤ ہم کہاں جائیں۔؟
وہیں اسی ایسوسیشن کے ایک رکن نریش جن کی 150 سالہ پرانی بوک اسٹور ہے انہوں نے کہا کہ' نجی اسکول کی منی پر انتظامیہ کو کارروائی کرنی چاہیے، خریدار، والدین کی مرضی ہونی چاہیے کی وہ کتابیں کہاں سے اور کس سے خریدیں۔ اسکول یہ فیصلہ نہ کرے۔'
ایسوسیشن کے صدر وانی نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے مداخلت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ' اسکول کے اندر کتابیں بیچنے یا پھر کسی مخصوص دکاندار سے کتابیں خریدنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے، نہیں تو ہمارا روزگار ختم ہوجائے گا۔
- مزید پڑھیں: کشمیر: خشک میوہ جات کی کمی، بازار ویران
- سرینگر: سماج میں پنپ رہی برائیوں کے خلاف آگاہی پروگرام
اس سلسلے میں ایک عام شہری طارق احمد نے ایسوسیشن کے مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ "اسکول میں جو کتاب 300 یہ 500 روپے میں ملتی ہے وہ بازار میں صرف 100 روپے میں دستیاب ہے لیکن اسکولز ہمیں وہیں سے خریدنے پر مجبور کررہے ہیں، مجبور ہم اونچے دامو میں کتاب کاپی خریدتے ہیں۔ انتظامیہ کو چاہیے کی اس ضمن میں کچھ سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں۔'