ETV Bharat / state

'سرینگر عسکریت پسندوں کے لئے اہم، ہلاک شدہ عسکریت پسند جنوبی کشمیر کے تھے'

جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے سرینگر کے بٹہ مالو میں آج ہونے والے تصادم کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصادم کے دوران خاتون کی ہلاکت افسوسناک ہے اور کافی وقت بعد معرکے کے دوران کسی شہری کی ہلاکت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا شوپیان میں مبینہ فرضی تصادم کی حقیقت چند روز میں عوام کے سامنے لائی جائے گی۔

'سرینگر عسکریت پسندوں کے لئے اہم، ہلاک شدہ عسکریت پسند جنوبی کشمیر کے تھے'
'سرینگر عسکریت پسندوں کے لئے اہم، ہلاک شدہ عسکریت پسند جنوبی کشمیر کے تھے'
author img

By

Published : Sep 17, 2020, 1:55 PM IST

Updated : Sep 17, 2020, 6:43 PM IST

جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے بٹہ مالو میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ آج ہونے والے ایک تصادم میں تین عسکریت پسند اور ایک مقامی خاتون ہلاک ہوئی ہیں جبکہ سی آر پی ایف کا ایک سینیئر افسر بھی شدید طور پر زخمی ہوا ہے۔ پولیس نے ایک پریس بیان میں ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی شناخت ذاکر احمد ولد نثار احمد ساکنہ آلورہ شوپیان، عبیر مشتاق ولد مشتاق احمد ساکنہ بدراگنڈ کولگام اور عادل حسین بھٹ ولد عبدلرشید بھٹ ساکنہ بٹپورہ چرسو کے طور کی ہے۔ تینوں کا تعلق حزب المجاہدین عسکری تنظیم سے تھا۔

جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران بٹہ مالو میں ہوئے تصادم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ "جموں و کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف پی کی مشترکہ عسکریت پسندانہ مخالف کارروائی کے دوران جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین عسکریت پسند ہلاک کیے گئے اور ان سے کئی طرح کے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین تصادم صبح تقریباً تین بجے کے قریب شروع ہوا اور آج سویرے دس بجے مکمل ہوا۔"

'سرینگر عسکریت پسندوں کے لئے اہم، ہلاک شدہ عسکریت پسند جنوبی کشمیر کے تھے'

ڈی جی پی نے تصادم کے دوران ایک مقامی خاتون کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا "مجھے افسوس ہے کہ بٹہ مالو کی رہنے والی کوثر ریاض گولیوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئیں۔ کافی عرصے سے عسکری مخالف کارروائیاں صاف اور شفاف طریقے سے انجام دی جا رہی تھیں تاہم یہ واقعہ افسوسناک ہے۔ سی آر پی ایف کے ایک ڈپٹی کمانڈر بھی اس تصادم کے دوران زخمی ہوئے ہیں جن کا اس وقت آرمی کے اسپتال میں علاج جاری ہے۔

مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سنہ 2020 ہر طریقے سے سیکیورٹی فورسز کے لیے بہتر جا رہا ہے۔ اس سال سرینگر میں ہوئی سات کارروائیوں میں 16 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ کل تعداد کی بات کی جائے تو امسال 72 عسکری مخالف کارروائیاں کی گئیں، جن میں177 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے۔ ان میں زیادہ تر پاکستان کے رہنے والے ہیں۔

سرینگر شہر میں بڑھتی عسکری کارروائیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سرینگر ہمیشہ سے ہی عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہا ہے۔ شہر میں کئی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے پانچ عسکریت پسند سرینگر کے رہنے والے تھے۔ جبکہ دیگر وادی کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھتے تھے۔

شوپیان میں ہونے والے مبینہ تصادم جس میں راجوری کے رہنے والے تین نوجوان ہلاک کیے گئے تھے اور سوپور میں گزشتہ روز پیش آئے واقعے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "دونوں معاملوں کی تحقیقات جاری ہے۔ شوپیان معاملے کی کارروائی کے نتائج کچھ ہی دن میں آپ کے سامنے ہوں گے۔ سوپور معاملے میں تحقیقات کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اور جلد ہی اس حوالے سے بھی تمام تر تفصیلات منظر عام میں ہوں گی۔

وہیں حال ہی میں مقرر کی گئی کشمیر کی نئی آئی جی آپریشنز (سی آر پف ایف) چارو سنہا نے کہا کہ "یہ ان کا پہلا عسکری مخالف آپریشن تھا۔ اس سے قبل وہ ماؤنواز مخالف کارروائیوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ یہاں کے حالات وہاں سے کافی مختلف ہیں۔ تاہم چند روز میں وہ اس نئی صورتحال سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گی اور بہتر طریقے سے کارروائیوں کو انجام دیا جائے گا۔

صحافیوں پر بڑھتے تشدد کے واقعات پر بات کرتے ہوئے ڈی جی کا کہنا تھا کہ "اکثر عسکری مخالف کارروائیوں کے دوران ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پولیس اور صحافی دونوں شوٹنگ کرتے ہیں۔ صحافی کیمرے سے اور ہم مجبورا بندوق سے۔ ایسے واقعات پیش نہیں آنے چاہیے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کی ہرممکن کوششیں کریں۔"

جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے بٹہ مالو میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ آج ہونے والے ایک تصادم میں تین عسکریت پسند اور ایک مقامی خاتون ہلاک ہوئی ہیں جبکہ سی آر پی ایف کا ایک سینیئر افسر بھی شدید طور پر زخمی ہوا ہے۔ پولیس نے ایک پریس بیان میں ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی شناخت ذاکر احمد ولد نثار احمد ساکنہ آلورہ شوپیان، عبیر مشتاق ولد مشتاق احمد ساکنہ بدراگنڈ کولگام اور عادل حسین بھٹ ولد عبدلرشید بھٹ ساکنہ بٹپورہ چرسو کے طور کی ہے۔ تینوں کا تعلق حزب المجاہدین عسکری تنظیم سے تھا۔

جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران بٹہ مالو میں ہوئے تصادم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ "جموں و کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف پی کی مشترکہ عسکریت پسندانہ مخالف کارروائی کے دوران جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین عسکریت پسند ہلاک کیے گئے اور ان سے کئی طرح کے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین تصادم صبح تقریباً تین بجے کے قریب شروع ہوا اور آج سویرے دس بجے مکمل ہوا۔"

'سرینگر عسکریت پسندوں کے لئے اہم، ہلاک شدہ عسکریت پسند جنوبی کشمیر کے تھے'

ڈی جی پی نے تصادم کے دوران ایک مقامی خاتون کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا "مجھے افسوس ہے کہ بٹہ مالو کی رہنے والی کوثر ریاض گولیوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئیں۔ کافی عرصے سے عسکری مخالف کارروائیاں صاف اور شفاف طریقے سے انجام دی جا رہی تھیں تاہم یہ واقعہ افسوسناک ہے۔ سی آر پی ایف کے ایک ڈپٹی کمانڈر بھی اس تصادم کے دوران زخمی ہوئے ہیں جن کا اس وقت آرمی کے اسپتال میں علاج جاری ہے۔

مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سنہ 2020 ہر طریقے سے سیکیورٹی فورسز کے لیے بہتر جا رہا ہے۔ اس سال سرینگر میں ہوئی سات کارروائیوں میں 16 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ کل تعداد کی بات کی جائے تو امسال 72 عسکری مخالف کارروائیاں کی گئیں، جن میں177 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے۔ ان میں زیادہ تر پاکستان کے رہنے والے ہیں۔

سرینگر شہر میں بڑھتی عسکری کارروائیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سرینگر ہمیشہ سے ہی عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہا ہے۔ شہر میں کئی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے پانچ عسکریت پسند سرینگر کے رہنے والے تھے۔ جبکہ دیگر وادی کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھتے تھے۔

شوپیان میں ہونے والے مبینہ تصادم جس میں راجوری کے رہنے والے تین نوجوان ہلاک کیے گئے تھے اور سوپور میں گزشتہ روز پیش آئے واقعے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "دونوں معاملوں کی تحقیقات جاری ہے۔ شوپیان معاملے کی کارروائی کے نتائج کچھ ہی دن میں آپ کے سامنے ہوں گے۔ سوپور معاملے میں تحقیقات کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اور جلد ہی اس حوالے سے بھی تمام تر تفصیلات منظر عام میں ہوں گی۔

وہیں حال ہی میں مقرر کی گئی کشمیر کی نئی آئی جی آپریشنز (سی آر پف ایف) چارو سنہا نے کہا کہ "یہ ان کا پہلا عسکری مخالف آپریشن تھا۔ اس سے قبل وہ ماؤنواز مخالف کارروائیوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ یہاں کے حالات وہاں سے کافی مختلف ہیں۔ تاہم چند روز میں وہ اس نئی صورتحال سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گی اور بہتر طریقے سے کارروائیوں کو انجام دیا جائے گا۔

صحافیوں پر بڑھتے تشدد کے واقعات پر بات کرتے ہوئے ڈی جی کا کہنا تھا کہ "اکثر عسکری مخالف کارروائیوں کے دوران ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پولیس اور صحافی دونوں شوٹنگ کرتے ہیں۔ صحافی کیمرے سے اور ہم مجبورا بندوق سے۔ ایسے واقعات پیش نہیں آنے چاہیے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کی ہرممکن کوششیں کریں۔"

Last Updated : Sep 17, 2020, 6:43 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.