سرینگر: آج کل صحت کے عوامل، کام سے متعلق تناؤ اور دیگر ذاتی مسائل کی وجہ سے تناؤ کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں وادی کشمیر میں بھی نفسیاتی امراض میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے نہ صرف بڑے بلکہ نوجوان اور بچے بھی ڈیپریشن ،اینگزئٹی ،چڑچڑا پن اور دیگر ذہنی بیماریوں سے جوج رہے ہیں۔ اگرچہ نفسیاتی تکالیف بڑھنے کے کئی وجوہات کار فرما ہیں۔ لیکن کیا طرز زندگی اور کھانے پینے سے بھی دماغی تکالیف کا کوئی عمل دخل ہے اور اگر ہے تو کس طرح کھانے پینے اور طرز زندگی میں تبدیلی لا کر نفسیاتی امراض سے بچا جاسکتا ہے۔
اس خاص موضوع پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے یو اے ای، دبئی کے پرائم ہیلتھ میں اسسٹنٹ میڈیکل ڈائریکٹر اور جنرل پریکٹیشنر کے بطور کام رہی ڈاکٹر آسیہ نبی سے خصوصی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت( ڈبیلو ایچ او) کے اعداد و شمار اس حوالے سے کافی پریشان کن ہیں کہ دنیا بھر میں تقریبا ایک ارب لوگ ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ وہیں ایک سروے کے مطابق چار لوگوں میں سے ایک شخص ذہنی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر آسیہ نے کہا کہ ضرورت کے مطابق پانی کا استعمال، نیند، صحت مند غذا، سوج کی روشنی، روزانہ کی ورزش، عبادت اور رشتوں پر بھروسہ ایسے سات بنیادی چیزیں ہیں۔ جن کو اگر زندگی میں بہتر طور اپنایا جائے تو نہ صرف نفسیاتی تکالیف یا بیماریوں سے بچا جا سکتا بلکہ دماغی طور صحت مند بھی رہ جاسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ذہنی طور پر صحت مند ہونا اتنا ہی ضروری ہے جنتا کہ جسمانی طور پر صحت مند ہونا، لیکن یہ دیکھنے میں آیا کہ بیشتر لوگ اپنے جسمانی صحت پر اپنا زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں بہ نسبت کہ دماغی صحت کے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارا جسم جتنا بھی صحت مند ہو۔ اگر ہمارا ذہن کمزور ہے تو ہم آگے بڑھنے یا اپنے اچھے مستقبل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ صحت مند جسم کے ساتھ ساتھ صحت مند دماغ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات ذہنی مایوسی ہمارے کنڑول میں نہیں ہوتی۔
مزید پڑھیں: بچوں میں ذہنی تناؤ سنگین بیماریوں کا باعث بن رہا ہے
ڈاکٹر آسیہ نبی نے کہا کہ ہماری زندگی میں آنے والی پریشانیاں ہماری ذہنی صحت کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ جس کی وجہ ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔جب تک ذہنی صحت صحیح طریقے سے بحال نہیں ہوتی تب تک ہماری جسمانی صحت بھی بحال نہیں ہوسکتی۔ ذہن کمزور ہونے کی وجہ سے ہم روزمرہ کی سرگرمیاں بھی ٹھیک طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتے۔ اگر ہم جسمانی صحت کے ساتھ دماغی صحت بھی اچھی رکھیں گے تب ہی ہم خوشگوار اور اچھی زندگی گزار سکیں گے۔
بات چیت کے دوران ڈاکٹر آسیہ نے کہا کہ ذہنی امراض بڑھنے کے اگرچہ کئی وجوہات کار فرما ہیں لیکن ان بیماریوں میں ہمارے کھانے پینے کے بدلتے عادات اور طرز زندگی میں بدل بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ایسی غذائیں یا کھانے بھی ہیں جو موڈ کو بہتر بنا سکتے ہیں، یادداشت کو تیز کر سکتے ہیں اور دماغ کو زیادہ موثر طریقے سے کام کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ دماغی صحت سے غذا کا تعلق بلکل ویسا ہی ہے جیسے دماغ اور آنتوں کا یعنی ایک ایسا رشتہ جس کے جسم پر اہم نتائج ہوتے ہیں۔ اس تعلق کو سمجھنے کی بائیولوجیکل بنیادوں میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ دماغ اور آنت ایک ہی جنین کے خلیات سے نکلتے ہیں اور انسان کی نشوونما کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دور میں جب دنیا بھر میں دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں نوجوانی سے ہی دماغ کے لیے صحت مند غذاﺅں کے انتخاب پر غور کرنا چاہیے ۔ اینٹی آکسائیڈنٹس، فائبر، لاتعداد وٹامنز اور نیوٹریشنز سمیت دیگر فائدہ مند اجزاء اپنے معمول کی غذا میں شامل کریں جبکہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز دماغی صحت اور طاقت بڑھانے کے لیے قدرت کی جانب سے دیئے جانے والے بہترین اجزاء میں سے ایک ہے۔ اگر آپ ہر عمر میں اپنے دماغی افعال کو بہترین رکھنا چاہتے ہیں تو غذا پر خاص دھیان دینا بے حد ضروری ہے۔
بچوں کے چڑچڑا پن پر پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر آسیہ نبی نے کہا کہ آج کے اس جدید ترین دور میں ہمارا ہر کام کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل فون پر ہوگیا ہے۔ ایسے میں نہ صرف بڑے بلکہ بچے بھی گھنٹوں موبائل یا کمپوٹر پر گزار دیتے ہیں جو کہ دماغی صحت کے لئے کافی مضر ہے۔ اس سے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہیں دماغ کے ساتھ ساتھ ہمارے پٹھوں اور آنکھوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ان چیزوں کا بے جا استعمال بھی ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔لہذا اپنے بچوں کو دماغی بیماریوں سے دور رکھیں اور ان کو موبائل گیمز کی بجائے کسی جسمانی مشق میں مصروف رکھیں تاکہ وہ جسم کے ساتھ دماغ کو بھی صحت مند رکھ سکیں۔