ETV Bharat / state

کشمیر کی سکڑتی زرعی زمین اور غذائی بحران کا اندیشہ - کشمیر کی سکڑتی زرعی زمین

سنہ 1997 میں کشمیر میں 163 ہزار ہیکٹر اراضی پر چاول کاشت کی جاتی تھی لیکن سنہ 2021 تک اس کا رقبہ کم ہوکر 141 ہزار ہیکٹر درج کیا گیا- یعنی 16 برسوں میں 22000 ہیکٹر رقبہ کم ہوگیا ہے-

کشمیر کی سکڑتی زرعی زمین اور غزائی بحران کا اندیشہ
کشمیر کی سکڑتی زرعی زمین اور غزائی بحران کا اندیشہ
author img

By

Published : Jun 16, 2021, 6:35 PM IST

Updated : Jun 16, 2021, 10:20 PM IST

ایک وقت تھا جب وادی کشمیر دھان کی فصل اُگانے میں خود کفیل تھی، تاہم گزشتہ دہائیوں سے زرعی زمین کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے جس سے چاول کی پیداوار میں کافی کمی آئی ہے-



شہر و دیہات میں اب زمیندار بھی بیرونی ریاستوں سے برآمد کئے گئے چاول پر گزارا کر رہے ہیں-


سنہ 2015 میں وادی میں زرعی زمین کا رقبہ پانچ لاکھ ہیکٹر کے قریب تھا لیکن سنہ 2019 میں اس کا رقبہ کم ہو کر چار لاکھ ہیکٹر کے قریب رہ گیا ہے-

کشمیر کی سکڑتی زرعی زمین اور غزائی بحران کا اندیشہ


سنہ 1997 میں کشمیر میں 163 ہزار ہیکٹر اراضی پر چاول کاشت کی جاتی تھی لیکن سنہ 2021 تک اس کا رقبہ کم ہوکر 141 ہزار ہیکٹر درج کیا گیا- یعنی 16 برسوں میں 22000 ہیکٹر رقبہ کم ہوگیا ہے-



بڑے پیمانے پر اس تبدیلی کی وجہ حکومتی و عوامی غیر قانونی تعمیرات تصور کئے جاتے ہیں-


شہر و دیہات میں قانون کی پاسداری نہ کرتے ہوئے حکومت، عمارتیں و دفاتر تعمیر کرتی ہیں۔ وہیں عام لوگ مکان اور تجارتی عمارات بنانے میں مشغول ہیں-


محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر چودھری محمد اقبال نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے اس میں محکمہ مال کا اہم کردار ہے لیکن وہ اس پر کارروائی کرنے میں کوتاہی دکھا رہے ہیں-


ماہرین کے مطابق زرعی اور دھان کی اراضی میں ہر گزرتے سال کمی ہونے کے باعث وادی میں چاول کی درآمدات میں اضافہ ہوگا جس سے لوگوں میں مالی بحران پیدا ہونے کے بڑے امکانات ہیں-



چودھری اقبال نے بتایا کہ تجاوزات کی بنسبت دھان کی زمین کو دیگر زراعت کی پیداوار میں تبدیل کرنا افضل ہے-



انکا کہنا تھا کہ آرگنک اور دیگر فصل اگانے میں محکمہ بھی کاشتکاروں کے شانہ بہ شانہ رہے گا اور اس میں زمیندار کو مالی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا-

عدالت کی طرف سے زرعی زمین کو تبدیل کرنے پر پابندی ہے جبکہ قانون کے مطابق بھی اس پر پابندی ہے، تاہم قانون کو حکومت اور عوام کی طرف سے بالائے طاق رکھا جارہا ہے-

ایک وقت تھا جب وادی کشمیر دھان کی فصل اُگانے میں خود کفیل تھی، تاہم گزشتہ دہائیوں سے زرعی زمین کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے جس سے چاول کی پیداوار میں کافی کمی آئی ہے-



شہر و دیہات میں اب زمیندار بھی بیرونی ریاستوں سے برآمد کئے گئے چاول پر گزارا کر رہے ہیں-


سنہ 2015 میں وادی میں زرعی زمین کا رقبہ پانچ لاکھ ہیکٹر کے قریب تھا لیکن سنہ 2019 میں اس کا رقبہ کم ہو کر چار لاکھ ہیکٹر کے قریب رہ گیا ہے-

کشمیر کی سکڑتی زرعی زمین اور غزائی بحران کا اندیشہ


سنہ 1997 میں کشمیر میں 163 ہزار ہیکٹر اراضی پر چاول کاشت کی جاتی تھی لیکن سنہ 2021 تک اس کا رقبہ کم ہوکر 141 ہزار ہیکٹر درج کیا گیا- یعنی 16 برسوں میں 22000 ہیکٹر رقبہ کم ہوگیا ہے-



بڑے پیمانے پر اس تبدیلی کی وجہ حکومتی و عوامی غیر قانونی تعمیرات تصور کئے جاتے ہیں-


شہر و دیہات میں قانون کی پاسداری نہ کرتے ہوئے حکومت، عمارتیں و دفاتر تعمیر کرتی ہیں۔ وہیں عام لوگ مکان اور تجارتی عمارات بنانے میں مشغول ہیں-


محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر چودھری محمد اقبال نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے اس میں محکمہ مال کا اہم کردار ہے لیکن وہ اس پر کارروائی کرنے میں کوتاہی دکھا رہے ہیں-


ماہرین کے مطابق زرعی اور دھان کی اراضی میں ہر گزرتے سال کمی ہونے کے باعث وادی میں چاول کی درآمدات میں اضافہ ہوگا جس سے لوگوں میں مالی بحران پیدا ہونے کے بڑے امکانات ہیں-



چودھری اقبال نے بتایا کہ تجاوزات کی بنسبت دھان کی زمین کو دیگر زراعت کی پیداوار میں تبدیل کرنا افضل ہے-



انکا کہنا تھا کہ آرگنک اور دیگر فصل اگانے میں محکمہ بھی کاشتکاروں کے شانہ بہ شانہ رہے گا اور اس میں زمیندار کو مالی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا-

عدالت کی طرف سے زرعی زمین کو تبدیل کرنے پر پابندی ہے جبکہ قانون کے مطابق بھی اس پر پابندی ہے، تاہم قانون کو حکومت اور عوام کی طرف سے بالائے طاق رکھا جارہا ہے-

Last Updated : Jun 16, 2021, 10:20 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.