علیحدگی پسند رہنما شبیر شاہ کو سنہ 2017 کے جولائی مہینے کی 25 تاریخ کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے گرفتار کرکے دہلی کے تہاڑ جیل منتقل کر دیا تھا۔ شبیر شاہ کی بیٹی سحر کو اپنے والد کی گرفتاری کے بارے میں انٹرنیٹ سے پتہ چلا تھا کیونکہ وہ اس وقت اپنے اسکول کے ساتھ کیمپ پر گئی ہوئی تھیں۔
سحر جو شبیر شاہ کی چھوٹی بیٹی ہیں اور اپنے والد کے زیادہ قریب بھی ہیں کا کہنا ہے کہ "آج اُن کے پاس اپنے والد کے ساتھ بتائے وقت کی کوئی نشانی نہیں ہے۔ تمام تصاویر، الیکٹرونک آلات (لیپ ٹاپ، موبائل دیگر) سب ضبط کر لیے گئے ہیں۔ میرے والد کمزور نہیں ہیں، جیل اُن کا دوسرا گھر ہے۔
وہ اپنی زندگی کے 34 برس جیل میں ہی گزار چکے ہیں۔" اُن کا مزید کہنا ہے کہ "جیل کے حالات کبھی ٹھیک نہیں تھے اور آج کل عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر بدترین ہوچکے ہیں۔ اُن کو وہاں سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ ملاقات کے وقت بھی بات کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ چھوٹی اور دھندلی کھڑکیوں سے آپ کیا دیکھ سکتی ہے؟"
مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے سحر نے کہا کہ "میرے والد کے معاملے کی کبھی صحیح طریقے سے عدالت میں سماعت ممکن ہی نہیں ہوپائی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کی جج صاحب چھٹی پر ہیں تو کبھی مخالف وکیل غیر حاضر ہوتے ہیں۔ مِلتی ہے تو ہمیں صرف تاریخ۔ اس وقت حالات خراب ہیں۔ ہم حکومت سے یہ نہیں کہتے کہ اُن کو رہا کر دو بس اتنا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر اُن کو جموں و کشمیر کے کسی بھی جیل میں منتقل کیا جائے۔ جب حالات بہتر ہو جائے تب ملک کے کسی بھی جیل میں زیر حراست رکھ سکتے ہو۔ میرے والد کی جوانی جیل میں گزری ہے وہ کہاں بھاگ جائیں گے۔"
دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کے چھوٹے فرزند احمد بن قاسم (20) کے خيالات سحر سے مختلف نہیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ "میری والدہ کو اُنکے دو ساتھیوں (ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی) کے ساتھ سن 2017 میں گرفتار کیا گیا اور پھر 2018 میں تہاڑ جیل منتقل کیا گیا۔ اُن پر ملک مخالف کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔ گزشتہ تین برسوں سے وہ اسی جیل میں قید ہے۔"اپنی والدہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "میری والدہ کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اُنہوں نے مختلف جیلوں میں اپنی زندگی کے 13 برس کاٹے ہیں۔ اُن پر پبلک سیفٹی ایکٹ بھی کئی بار عائد کیا گیا۔ اس وقت حالات مختلف ہیں۔ عالمی وبا کی وجہ سے میری والدہ کی صحت ہماری پریشانی کی وجہ ہے۔ وہ ساٹھ برس کی ہیں اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ جس وجہ سے وہ کورونا کا شکار بن سکتی ہیں۔"اُن کا مزید کہنا تھا کہ "تہاڑ جیل میں گنجائش سے زیادہ افراد مقید ہیں۔ جہاں اس جیل میں تقریباً 10000 قیدیوں کے لیے جگہ ہے وہیں اس وقت 20000 سے زائد قیدی یہاں زیر حراست ہیں۔ حال ہی میں جیل میں 17 قیدی کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے جن میں شاہد الاسلام بھی شامل تھے۔"مرکزی حکومت سے مخاطب ہوتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "وبا کے پیش نظر کئی خونخار مجرموں کو آزاد کیا گیا تاہم کسی بھی کشمیری کو رہا نہیں کیا گیا۔ کشمیری سیاسی قیدیوں پر وبا کے دوران بھی کوئی رعایت نہیں برتی جا رہی ہے جبکہ پوری دنیا میں قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے تاہم مرکزی سرکار سے زیادہ امید نہیں ہے۔ ان حالات میں وہ چاہیں تو کشمیری قیدیوں کو کشمیر منتقل کر سکتے تھے پر وہ ایسا نہیں کریں گے۔ جب سے عالمی وبا پھیلا ہے تب سے ہم اُن سے ملاقات نہیں کر پائیں ہیں۔"وہیں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسیشن نے بھی اس حوالے سے مرکزی اور یو ٹی حکومت کے سامنے اپنا مطالبہ رکھتے ہوئے کہا ہے کہ "ملک میں عالمی وبا کے معاملات میں شدید اضافے کے پیش نظر تہاڑ میں زیر حراست کشمیری قدیوں کو وادی منتقل کیا جائے۔"ایسوسی ایشن کے ترجمان جی این شاہین کا کہنا ہے کہ "گزشتہ روز ایسوسیشن کے چیئرمین نذیر احمد رونگا کی صدارت میں ایک خصوصی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اجلاس کے دوران بھارت کی مختلف جیلوں میں زیر حراست قديوں کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔"اُن کا مزید کہنا تھا کہ "مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے گزارش ہے کہ عالمی وبا کے پیش نظر کشمیری قیدیوں کو وادی منتقل کیا جائے۔ ان قدیوں کے گھر والے کافی پریشان ہیں۔ ہم انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ ان قدیوں کے معاملات پر دوبارہ نظرثانی کی جائے اور پھر پیرول پر رہا کیا جائے۔"دہلی کے تہاڑ جیل میں اس وقت تقریباً 40 کشمیری قیدی زیر حراست ہیں۔ جن میں شبیر شاہ، شاہد الاسلام، الطاف شاہ، آسیہ اندربی، ناہیدہ نسرین، بشیر بٹ، محمد یاسین ملک، ایاز اکبر اور دیگر علحیدگی پسند رہنما شامل ہیں۔