انہوں نے کہا کہ 'وادی میں عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اور یہ سول سوسائٹی، والدین اور زمینی سطح پر کام کرنے والے پولیس افسروں کی کوششوں سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔'
پولیس سربراہ نے جمعہ کے روز یہاں بادامی باغ فوجی چھاونی میں واقع فوج کی پندرہویں کور کے ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا: 'میں جی او سی صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے سے ہمیں، ان کے گھر والوں، دوستوں اور سول سوسائٹی میں سے کسی کو بھی مسرت نہیں ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کے پاس بندوق ہے وہ سب کے لئے خطرہ ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمیں عام شہریوں، سیکورٹی تنصیبات اور سیکورٹی فورسز پر بہت حملے دیکھنے کو ملے ہیں۔ ہم اس خطرے کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں وہ کارروائی کرنی ہے جو ہم کررہے ہیں اور ہم ایسا کرنا جاری رکھیں گے'۔
دلباغ سنگھ نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں کمی آنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: 'مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ عسکریت پسندوں کی نئی بھرتی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ سول سوسائٹی، والدین اور زمینی سطح پر کام کرنے والے پولیس افسروں کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو عسکریت پسندوں کی صفوں میں تقریباً شمولیت اختیار کرچکے تھے لیکن ہم نے انہیں ایسا کرنے سے روکا'۔
پولیس سربراہ نے کہا کہ 'وادی میں گزشتہ ساڑھے پانچ ماہ کے دوران زائد از ایک سو عسکریت پسند مارے جاچکے ہیں۔ بقول ان کے ان میں سے پچاس سے زیادہ عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا۔ بیس بیس کا تعلق بالترتیب لشکر طیبہ اور جیش محمد سے تھا۔ دس دیگر کا تعلق چھوٹی تنظیموں جیسے البدر، انصار غزوۃ الہند وغیرہ سے تھا۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'صوبہ جموں میں بھی قریب ایک درجن عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ پیر پنچال میں صورتحال پوری طرح سے قابو میں ہے۔ ڈوڈہ کشتواڑ رینج عسکریت پسندوں سے پاک علاقہ بننے کے بالکل قریب ہے۔ وہاں ڈوڈہ میں ایک جبکہ کشتواڑ میں تین عسکریت پسند سرگرم ہیں'۔
دلباغ سنگھ نے کہا کہ 'رواں برس ساڑھے پانچ ماہ کے دوران لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی ہے جو لوگوں کے تعاون سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔'
انہوں نے کہا: 'لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کے تناظر میں گزشتہ ساڑھے پانچ ماہ بہت ہی شاندار رہے ہیں۔ پوری وادی بالخصوص مسلح تصادموں کے مقامات پر ہمیں امن دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ صرف لوگوں کے تعاون سے ہی ممکن ہو پایا ہے'۔