ETV Bharat / state

وادی کشمیر سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ کل

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وادی میں جاری مسلسل پابندیوں اور انٹرنیٹ خدمات معطل کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر کل سپریم کورٹ فیصلہ سنائے گی۔

وادی کشمیر سے متعلق درخواستوں پر کل فیصلہ
وادی کشمیر سے متعلق درخواستوں پر کل فیصلہ
author img

By

Published : Jan 9, 2020, 9:34 PM IST

Updated : Jan 9, 2020, 10:26 PM IST

مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وادی میں مسلسل انٹرنیٹ خدمات متاثر ہیں ساتھ ہی تمام سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔

اس تعلق سے عدالت عظمی میں متعدد افراد نے درخواست دائر کی تھی کہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں سے متعلق سپریم کورٹ مداخلت کرے اور جلد از جلد وادی کے باشندوں کو پریشانیوں سے نجات دلائے۔

بشکریہ ٹویٹر
بشکریہ ٹویٹر

واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو پارلیمانٹ میں بل پاس کرکے اس کی خصوصی ریاست کا درجہ دلانے والی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا تھا۔ جس کے بعد سے وہاں انٹرنیٹ خدمات متاثر ہیں۔


سپریم کورٹ مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے بیشتر دفعات کوغیر مؤثر کرنے کے بعد مواصلات سمیت مختلف خدمات پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر جمعہ کو فیصلہ سنائے گی۔

جسٹس این وی رمن، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سبھاش ریڈی کی تین رکنی بینچ نے تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔

مرکزی حکومت کی جانب سے پیش سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں امن کی بحالی کے لیے پابندیاں لگائی گئی تھی۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں 5 اگست سنہ 2019 سے لگائی گئی پابندیوں کے خلاف 'کشمیر ٹائمز ' کی ایڈیٹر انورادھا بھسین، کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد اور کچھ دوسرے لوگوں کی جانب سے عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔

غلام نبی آزاد کی جانب سے کورٹ میں پیش سینیئر وکیل کپل سبل نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'دفعہ 144 میں قومی سلامتی کا ذکر نہیں ہے، آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ یہ قومی ہنگامی صورتحال ہے، حکومت کو اس کے لیے ثبوت دینا ہوگا'۔

انہوں نے اپنی دلیل میں مزید کہا تھا کہ 'نیشنل ایمرجنسی کا بھی عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے، کیا حکومت اس حکم کو دکھا سکتی ہے، جس کے تحت اس نے دفعہ 144 کو ہٹایا ہے۔

کپل سبل نے اپنی بحث میں کہا تھا کہ 'حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے اسکول کھولا ہوا ہے لیکن کیا سرپرست اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں، کشمیر میں کاروبار، اسکول، کسان اور سیاحت غرض کہ ہر شعبہ بری طرح متاثر ہے، ایسے میں عدالت عظمیٰ کو قومی سلامتی اور زندگی جینے کے حق میں موازنہ کرنا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ٹیکنالوجی کے سہارے اگر کوئی خرابی کر سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ انٹرنیٹ سروس بند کر دیں گے۔

واضح رہے کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل دی تھی کہ انٹرنیٹ کا استعمال شدت پسندوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔

ریاست میں دفعہ 370 اور 35 اے کو غیر مؤثر کئے جانے کے فیصلہ کی آئینی قانونی حیثیت کو چیلنج دینے والی درخواستوں پر آئینی بنچ الگ سماعت کر رہی ہے۔

مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وادی میں مسلسل انٹرنیٹ خدمات متاثر ہیں ساتھ ہی تمام سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔

اس تعلق سے عدالت عظمی میں متعدد افراد نے درخواست دائر کی تھی کہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں سے متعلق سپریم کورٹ مداخلت کرے اور جلد از جلد وادی کے باشندوں کو پریشانیوں سے نجات دلائے۔

بشکریہ ٹویٹر
بشکریہ ٹویٹر

واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو پارلیمانٹ میں بل پاس کرکے اس کی خصوصی ریاست کا درجہ دلانے والی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا تھا۔ جس کے بعد سے وہاں انٹرنیٹ خدمات متاثر ہیں۔


سپریم کورٹ مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے بیشتر دفعات کوغیر مؤثر کرنے کے بعد مواصلات سمیت مختلف خدمات پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر جمعہ کو فیصلہ سنائے گی۔

جسٹس این وی رمن، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سبھاش ریڈی کی تین رکنی بینچ نے تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔

مرکزی حکومت کی جانب سے پیش سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں امن کی بحالی کے لیے پابندیاں لگائی گئی تھی۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں 5 اگست سنہ 2019 سے لگائی گئی پابندیوں کے خلاف 'کشمیر ٹائمز ' کی ایڈیٹر انورادھا بھسین، کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد اور کچھ دوسرے لوگوں کی جانب سے عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔

غلام نبی آزاد کی جانب سے کورٹ میں پیش سینیئر وکیل کپل سبل نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'دفعہ 144 میں قومی سلامتی کا ذکر نہیں ہے، آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ یہ قومی ہنگامی صورتحال ہے، حکومت کو اس کے لیے ثبوت دینا ہوگا'۔

انہوں نے اپنی دلیل میں مزید کہا تھا کہ 'نیشنل ایمرجنسی کا بھی عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے، کیا حکومت اس حکم کو دکھا سکتی ہے، جس کے تحت اس نے دفعہ 144 کو ہٹایا ہے۔

کپل سبل نے اپنی بحث میں کہا تھا کہ 'حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے اسکول کھولا ہوا ہے لیکن کیا سرپرست اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں، کشمیر میں کاروبار، اسکول، کسان اور سیاحت غرض کہ ہر شعبہ بری طرح متاثر ہے، ایسے میں عدالت عظمیٰ کو قومی سلامتی اور زندگی جینے کے حق میں موازنہ کرنا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ٹیکنالوجی کے سہارے اگر کوئی خرابی کر سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ انٹرنیٹ سروس بند کر دیں گے۔

واضح رہے کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل دی تھی کہ انٹرنیٹ کا استعمال شدت پسندوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔

ریاست میں دفعہ 370 اور 35 اے کو غیر مؤثر کئے جانے کے فیصلہ کی آئینی قانونی حیثیت کو چیلنج دینے والی درخواستوں پر آئینی بنچ الگ سماعت کر رہی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Jan 9, 2020, 10:26 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.