ETV Bharat / state

دو سیاسی رہنماؤں پر پی ایس اے کا اطلاق

علی محمد ساگر اور سرتاج مدنی 5 اگست سے نظر بند ہیں اور آج انہیں ایم ایل اے ہاسٹل سے گپکار روڑ پر واقع ان کی رہائش گاہ منتقل کیا گیا ہے۔

دو سیاسی رہنماؤں پر پی ایس اے کا اطلاق
دو سیاسی رہنماؤں پر پی ایس اے کا اطلاق
author img

By

Published : Feb 6, 2020, 9:04 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 11:01 AM IST

جموں و کشمیر کے دو سینیئر سیاسی رہنماؤں پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ڈی پی کے سینیئررہنما و محبوبہ مفتی کے ماموں زاد سرتاج مدنی اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر خزانہ و نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما علی محمد ساگر پر پی ایس اے لگایا گیا ہے۔

دونوں رہنما 5 اگست سے سرینگر کے سنتور ہوٹل میں نظر بند ہیں جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس وقت سنتور ہوٹل کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

دونوں رہنماؤں کو چند ہفتے قبل سنتور ہوٹل سے ایم ایل اے ہاسٹل منتقل کیا گیا تھا، تاہم آج انہیں گپکار روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ منتقل کر کے نظر بند رکھا گیا۔

ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق افضل گرو کی پھانسی کے بعد سرتاج مدنی نے مبینہ طور پر وادی میں امن و امان میں رخنہ ڈالنے میں علیحدگی پسند رہنماؤں کی حمایت کر رہے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ سنہ 2009 میں شوپیاں عصمت دری اور قتل معاملہ پر جو پُرتشدد احتجاج ہوا اس میں سرتاج مدنی کا مبینہ طور پر اہم کردار رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔

وہیں علی محمد ساگر حکومت کی پالسیوں کو مبینہ طور پر غلط قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے تھے اور 35 اے 370 کو لے کر مرکزی حکومت کی سخت نکتہ چینی کر رہے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ علی محمد ساگر کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ ایک بار پھر وادی میں امن و امان میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ ان کے خلاف بھی پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آیئینی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔
اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل یعنی 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو درجنوں ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا جس میں تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔

سیاسی رہنماؤں کے علاوہ حریت رہنماؤں، علیحدگی پسند رہنماؤں، تاجروں سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرچہ سیاسی رہنماؤں و دیگر افراد کو رہا کیا گیا، لیکن تین سابق وزرائے اعلیٰ ابھی بھی نظر بند ہیں۔ مولوی عمر فاروق، سید علی شاہ گیلانی سمیت علیحدگی پسند اور دیگر حریت رہنما بھی نظر بند ہیں۔

ادھر آج وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے چند بڑے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر سمیت ملک کے کسی بھی حصہ کے حالات بگڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ذہنیت قابل قبول نہیں ہے۔

نریندر مودی نے کہا کہ ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کشمیر کے عوام پر اعتماد نہیں تھا۔

جموں و کشمیر کے دو سینیئر سیاسی رہنماؤں پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ڈی پی کے سینیئررہنما و محبوبہ مفتی کے ماموں زاد سرتاج مدنی اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر خزانہ و نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما علی محمد ساگر پر پی ایس اے لگایا گیا ہے۔

دونوں رہنما 5 اگست سے سرینگر کے سنتور ہوٹل میں نظر بند ہیں جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس وقت سنتور ہوٹل کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

دونوں رہنماؤں کو چند ہفتے قبل سنتور ہوٹل سے ایم ایل اے ہاسٹل منتقل کیا گیا تھا، تاہم آج انہیں گپکار روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ منتقل کر کے نظر بند رکھا گیا۔

ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق افضل گرو کی پھانسی کے بعد سرتاج مدنی نے مبینہ طور پر وادی میں امن و امان میں رخنہ ڈالنے میں علیحدگی پسند رہنماؤں کی حمایت کر رہے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ سنہ 2009 میں شوپیاں عصمت دری اور قتل معاملہ پر جو پُرتشدد احتجاج ہوا اس میں سرتاج مدنی کا مبینہ طور پر اہم کردار رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔

وہیں علی محمد ساگر حکومت کی پالسیوں کو مبینہ طور پر غلط قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے تھے اور 35 اے 370 کو لے کر مرکزی حکومت کی سخت نکتہ چینی کر رہے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ علی محمد ساگر کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ ایک بار پھر وادی میں امن و امان میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ ان کے خلاف بھی پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آیئینی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔
اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل یعنی 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو درجنوں ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا جس میں تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔

سیاسی رہنماؤں کے علاوہ حریت رہنماؤں، علیحدگی پسند رہنماؤں، تاجروں سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرچہ سیاسی رہنماؤں و دیگر افراد کو رہا کیا گیا، لیکن تین سابق وزرائے اعلیٰ ابھی بھی نظر بند ہیں۔ مولوی عمر فاروق، سید علی شاہ گیلانی سمیت علیحدگی پسند اور دیگر حریت رہنما بھی نظر بند ہیں۔

ادھر آج وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے چند بڑے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر سمیت ملک کے کسی بھی حصہ کے حالات بگڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ذہنیت قابل قبول نہیں ہے۔

نریندر مودی نے کہا کہ ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کشمیر کے عوام پر اعتماد نہیں تھا۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 11:01 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.