ETV Bharat / state

صائمہ شفیع: کشمیر کی 'کرال کُور'

صائمہ کا کہنا ہے کہ 'میں نے جب اپنا کام شروع کیا تھا تب ہر طرف سے میری حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ میں اپنے والدین کو منا چکی تھی اور ان کا بھی بھرپور تعاون مل رہا تھا۔ لیکن دفعہ 370 کی منسوخی اور کووڈ کی وجہ سے ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

صائمہ شفیع: کشمیر کی 'کرال کُور'
صائمہ شفیع: کشمیر کی 'کرال کُور'
author img

By

Published : Oct 20, 2020, 8:32 PM IST

Updated : Oct 20, 2020, 10:28 PM IST

سرینگر شہر کی رہنے والی صائمہ شفیع پیشے سے سرکاری جونیئر انجینئر ہیں۔ کچھ برس قبل وہ اپنے خاندان کے ساتھ چندی گڑھ گھومنے گئی تھی تو وہاں برانڈڈ شورومز میں مٹی سے بنے ہوئے خوبصورت برتن دیکھیں جن کی خوبصورتی انہیں قائل کر گئی۔ قیمت ہزاروں میں تھی اور ایک مٹکا خرید لیا۔

صائمہ شفیع: کشمیر کی 'کرال کُور'

اسی وقت انہیں کشمیر کے کرال طبقے (ظروف کار طبقے) سے وابستہ لوگوں کا خیال آیا۔ یہ طبقہ ہزاروں سالوں سے مٹی کے برتن بنا رہا ہے لیکن ان کے فن کو جدیدیت نے نظر لگا دی ہے۔ اس کے بعد صائمہ واپس سرینگر آئی پھر بنگلورو جا کر خود مٹی کے برتنوں کو جدید طریقے سے بنانا سیکھا۔ اب کشمیر میں وہ کرال طبقے کے لوگوں کو بنا کسی اجرت کے یہ کام سکھاتی ہے۔

دفعہ 370 اور 35 کی منسوخی اور اس کے بعد عالمی وبا سے ہوئی مشکلات

صائمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ہی اپنا کام شروع کیا تھا اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹز پر ان کی تعریف بھی ہو رہی تھی لیکن مرکزی سرکار کی جانب سے لیے گئے فیصلے کے بعد یہاں عائد پابندیوں کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پابندیوں میں کچھ رعایت برتی گئی لیکن تب تک سردیوں کا موسم آ چکا تھا۔ سردیوں میں ظروف کاری کا کام نہیں ہوتا۔ صائمہ کو اُمید تھی کی موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی ان کے کام کو ایک بار پھر جان ملے گی تاہم عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔

صائمہ کا کہنا ہے کہ 'میں نے جب اپنا کام شروع کیا تھا تب ہر طرف سے میری حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ میں اپنے والدین کو منا چکی تھی اور ان کا بھی بھرپور تعاون مل رہا تھا۔ ظروف کاری کے لیے کشمیر میں سامان دستیاب نہیں ہوتا۔ مٹی سے لے کر مشینوں تک، سب چیزیں باہر سے منگوانی پڑتی ہے۔

یہاں جو مٹی ہوتی ہے وہ ٹیراکوٹا ہوتی ہے جو جدید ظروف کاری میں استعمال نہیں کی جاتی۔ میں نے سامان آرڈر کیا تھا۔ پیسے بھی دے دئے تھے۔ لیکن میرا سامان یہاں پہنچا اس کا پتا لگانے کے لیے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پھر دہلی جا کر سامان کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنی پڑی۔ پھر اُمید تھی کی اگلے برس سب ٹھیک ہو گا تاہم یہ کشمیر ہے جہاں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔'

ظروف کاری کی اکاڈمی

صائمہ کا سپنا ہے کہ وہ مستقبل میں وادی میں اس فن کو فروغ دینے کے لیے ایک اکاڈمی کھولے گی جہاں ظروف کاری میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس کام کو سیکھ سکیں گے۔ اس کے علاوہ کرال طبقے کی نئی پیڑھی کو بھی جدید ظروف کاری کے بارے میں تربیت دی جائے گی۔

والدہ کی جانب سے بھرپور تعاون

'میرے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ میرے والد مرکزی سرکار میں ملازم تھے۔ والدہ بھی ایک گزٹیڈ افسر رہ چکی ہیں۔ انہوں نے میری ہمیشہ حمایت کی ہے۔ پہلے انہیں سمجھانے میں تھوڑا وقت لگا بعد میں ہر قدم پر ساتھ دیا۔ ایک روز میں مایوس تھی تو میری والدہ نے خالی چک میرے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا کہ جا بیٹا جو سامان خریدنا ہے لے لو۔ میرے والد نے کبھی میرے سامنے میری تعریف نہیں کی لیکن میرے پیچھے بڑے فخر سے میری تعریف کرتے ہیں۔'

صائمہ خود کو کرال کُور کے نام سے بلایا جانا زیادہ پسندکرتی ہے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ "یہ فن کوئی معمولی فن نہیں ہے۔ یہ نہ صرف آپ کا ذہنی دباو کم کرتا ہے بلکہ آپ کو اپنی مٹی سے بھی جوڑتا ہے۔ اس مٹی سے جس سے ہم سب بنے ہیں۔

انتظامیہ نے یہاں کے ہنر مندوں کے لیے ایک پورٹل کا آغاز کیا ہے لیکن انتظامیہ کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ہنرمند پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ اس لیے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ ای پورٹل ہنر مندوں تک پہنچے۔ یہ نہ ہو کی کوئی اور پھر سے فائدہ اٹھانے لگے۔"

سرینگر شہر کی رہنے والی صائمہ شفیع پیشے سے سرکاری جونیئر انجینئر ہیں۔ کچھ برس قبل وہ اپنے خاندان کے ساتھ چندی گڑھ گھومنے گئی تھی تو وہاں برانڈڈ شورومز میں مٹی سے بنے ہوئے خوبصورت برتن دیکھیں جن کی خوبصورتی انہیں قائل کر گئی۔ قیمت ہزاروں میں تھی اور ایک مٹکا خرید لیا۔

صائمہ شفیع: کشمیر کی 'کرال کُور'

اسی وقت انہیں کشمیر کے کرال طبقے (ظروف کار طبقے) سے وابستہ لوگوں کا خیال آیا۔ یہ طبقہ ہزاروں سالوں سے مٹی کے برتن بنا رہا ہے لیکن ان کے فن کو جدیدیت نے نظر لگا دی ہے۔ اس کے بعد صائمہ واپس سرینگر آئی پھر بنگلورو جا کر خود مٹی کے برتنوں کو جدید طریقے سے بنانا سیکھا۔ اب کشمیر میں وہ کرال طبقے کے لوگوں کو بنا کسی اجرت کے یہ کام سکھاتی ہے۔

دفعہ 370 اور 35 کی منسوخی اور اس کے بعد عالمی وبا سے ہوئی مشکلات

صائمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ہی اپنا کام شروع کیا تھا اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹز پر ان کی تعریف بھی ہو رہی تھی لیکن مرکزی سرکار کی جانب سے لیے گئے فیصلے کے بعد یہاں عائد پابندیوں کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پابندیوں میں کچھ رعایت برتی گئی لیکن تب تک سردیوں کا موسم آ چکا تھا۔ سردیوں میں ظروف کاری کا کام نہیں ہوتا۔ صائمہ کو اُمید تھی کی موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی ان کے کام کو ایک بار پھر جان ملے گی تاہم عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔

صائمہ کا کہنا ہے کہ 'میں نے جب اپنا کام شروع کیا تھا تب ہر طرف سے میری حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ میں اپنے والدین کو منا چکی تھی اور ان کا بھی بھرپور تعاون مل رہا تھا۔ ظروف کاری کے لیے کشمیر میں سامان دستیاب نہیں ہوتا۔ مٹی سے لے کر مشینوں تک، سب چیزیں باہر سے منگوانی پڑتی ہے۔

یہاں جو مٹی ہوتی ہے وہ ٹیراکوٹا ہوتی ہے جو جدید ظروف کاری میں استعمال نہیں کی جاتی۔ میں نے سامان آرڈر کیا تھا۔ پیسے بھی دے دئے تھے۔ لیکن میرا سامان یہاں پہنچا اس کا پتا لگانے کے لیے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پھر دہلی جا کر سامان کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنی پڑی۔ پھر اُمید تھی کی اگلے برس سب ٹھیک ہو گا تاہم یہ کشمیر ہے جہاں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔'

ظروف کاری کی اکاڈمی

صائمہ کا سپنا ہے کہ وہ مستقبل میں وادی میں اس فن کو فروغ دینے کے لیے ایک اکاڈمی کھولے گی جہاں ظروف کاری میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس کام کو سیکھ سکیں گے۔ اس کے علاوہ کرال طبقے کی نئی پیڑھی کو بھی جدید ظروف کاری کے بارے میں تربیت دی جائے گی۔

والدہ کی جانب سے بھرپور تعاون

'میرے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ میرے والد مرکزی سرکار میں ملازم تھے۔ والدہ بھی ایک گزٹیڈ افسر رہ چکی ہیں۔ انہوں نے میری ہمیشہ حمایت کی ہے۔ پہلے انہیں سمجھانے میں تھوڑا وقت لگا بعد میں ہر قدم پر ساتھ دیا۔ ایک روز میں مایوس تھی تو میری والدہ نے خالی چک میرے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا کہ جا بیٹا جو سامان خریدنا ہے لے لو۔ میرے والد نے کبھی میرے سامنے میری تعریف نہیں کی لیکن میرے پیچھے بڑے فخر سے میری تعریف کرتے ہیں۔'

صائمہ خود کو کرال کُور کے نام سے بلایا جانا زیادہ پسندکرتی ہے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ "یہ فن کوئی معمولی فن نہیں ہے۔ یہ نہ صرف آپ کا ذہنی دباو کم کرتا ہے بلکہ آپ کو اپنی مٹی سے بھی جوڑتا ہے۔ اس مٹی سے جس سے ہم سب بنے ہیں۔

انتظامیہ نے یہاں کے ہنر مندوں کے لیے ایک پورٹل کا آغاز کیا ہے لیکن انتظامیہ کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ہنرمند پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ اس لیے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ ای پورٹل ہنر مندوں تک پہنچے۔ یہ نہ ہو کی کوئی اور پھر سے فائدہ اٹھانے لگے۔"

Last Updated : Oct 20, 2020, 10:28 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.