اگرچہ جان سب کو عزیز ہوتی ہیں اور کوئی بھی شخص اس کو ختم کرنا نہیں چاہتا ہے تاہم کچھ اوقات میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو لگتا ہےکہ وہ حالات کے سامنے بے بس ہوچکا ہے جس کی وجہ سے انسان خودکشی جیسا بڑا قدم اٹھا کر اپنی قیمتی جان گنوا بیٹھتا ہے۔
خواتین کے اندر خودکشی کے اس رجحان کی وجوہات گھریلو تنازعات اور معاشی بد حالی سمجھے جاتے ہیں، جبکہ ذہنی تناؤ اور سماجی شیرازے کے بکھراؤ کو بھی خودکشی کے اہم محرکات سمجھا جاتا ہے۔ کچھ برس قبل اگر کسی خاتون کو کوئی گھریلو یا ذاتی مسئلہ ہوتا تھا تو وہ اپنے پڑوسیوں، عزیز و اقارب یا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مسئلہ بیان کرتی تھی اور اسے کئی مرتبہ کسی بھی مشکل سے باہر نکلنے کی راہ بھی ملتی تھی وہیں اس کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا تھا لیکن اب انفرادی زندگی اور سماجی دوری سے یہ معاملات دل میں ہی پیوست ہوکر رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے وادی کشمیر میں مادہ پرستی کی طرف لوگ زیادہ مائل ہورہے ہیں۔ اخلاقیات میں گراوٹ اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے سماج کا تانا بانابکھر گیا ہے، جبکہ دور جدید کی چکا چوند زندگی کی وجہ سے یہ زیادہ پریشان ہیں۔ جس کے باعث بھی خواتین کی جانب سے خودکشی کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا کہ اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونے سے بھی سماج میں اس طرح کے معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
دوسری جانب ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ بڑھتے ہوئے خودکشی کے معاملات کی اصل وجہ ذمہ دار حالات ہیں جن سے ایک انسان خاص کر خواتین مقابلہ کرنے میں ناکام ہوتی ہیں وہیں صنف نازک زیادہ جذباتی ہوتی ہیں جبکہ ماحول وحالات کے ساتھ مقابلے کرنے کے لیے بھی کمزور ہوتی ہیں ۔
اگرچہ کشمیر میں خواتین کے اندر خودکشی کے بڑھتے رجحان کے کئی وجوہات کار فرما ہیں لیکن ذہنی تناؤ اس کی خاص اور اہم وجہ ہے۔
ڈاکڑ عطیہ کہتی ہیں کہ وہ روزانہ اپنی او پی ڈی میں ان خواتین مریضوں کی ایک خاصی تعداد دیکھتی ہیں جو خطرناک ذہنی مرض سے جوجھ رہی ہوتی ہیں۔
خواتین میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کے اگرچہ کئی وجوہات کارفرما ہوسکتے ہیں تاہم اخلاقی اور مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اس طرح کے واقعات سے مکمل طور چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔