کشمیری عوام نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
سرینگر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی فردوس الٰہی نے کہا کہ انٹرنیٹ ہمارا بنیادی حق ہے لیکن لوگوں کو گزشتہ ماہ سے اس حق سے محروم رکھا گیا جو کہ سراسر انصافی ہے۔ آج پانچ ماہ بعد سپریم کورٹ کو یاد آرہا ہے کہ کشمیر میں بنیادی حق سلب کیا گیا ہے'۔
انہوں نے کہا :' کہ انٹرنیٹ پر عائد کی گئی پابندی پر جائزہ لینے کے احکامات جاری کرنے پر ہم سپریم کورٹ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جائزہ لینے کے احکامات جاری کرنے کے بجائے انٹرنیٹ بحال کرنے کے احکامات جاری کرنے چاہیے تھے۔
فردوس الٰہی نے کہا کہ 'کیا عدالت کو گزشتہ پانچ مہینوں سے عوام کو درپیش مشکلات کا اندازہ نہیں تھا؟ خیر اب فیصلہ آیا ہے اور یقین بھی ہے کی انتظامیہ وادی میں انٹرنیٹ آنے والے دنوں میں بحال کرے گی'۔
سینئر صحافی رمیز مقدومی کا کہنا تھا کہ "آج سپریم کورٹ نے بی جے پی حکومت کی سرزنش کی ہے۔ فیصلہ آنے میں بیشک کافی وقت لگا ہے بہرحال دیر آید درست آئے'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "کشمیری عوام کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ جلد بحال کیا جائے گا۔
کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کورٹ کو مبارکباد پیش کی۔
غلام نبی آزاد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے دلوں کی بات اور ترجمانی کی ہے اس کے لیے میں سپریم کورٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی اظہار رائے پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔ لوگوں کے حقوق نہیں چھینے جانے چاہیے۔ سات دنوں کے اندر دفعہ 144 پر جائزہ لیا جانا چاہیے۔ حکومت کی دلیلوں کو سپریم کورٹ نے خارج کیا۔ کہیں بھی 144 لگائی جائے تو اسے غیرمعینہ نہیں کیا جاسکتا۔ غیر معمولی حالات میں ہی اس کا نفاذ کیا جاسکتا ہے۔