جموں کشمیر عدالت عالیہ کے ایک سینئر افسر نے ای ٹی وی کو بتایا کہ ’’یہاں کی عدالتوں میں پہلے ہی معاملات کافی زیادہ تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے التواء میں پڑے معاملات کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’لاک ڈاؤن سے قبل عدالتوں میں تقریبا 80000 معاملے زیر غور تھے اور اب تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے افراد پر جو معاملے درج ہیں وہ ابھی تک عدالت کے سامنے پیش نہیں کیے گئے آنے والے دنوں میں ان کی بھی سنوائی ہوگی۔ جس کے بعد عدالتوں پر معاملات کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’عدالت کی ایک بیچ میں ایک دن میں پچاس سے زیادہ معاملات پر سماعت نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسی کوشش بھی کی جائے تو وہ عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گی اور جج صاحبان بھی ہر معاملے کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان سب معاملات کو فاسٹ ٹریک پر لاکر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد گورنر انتظامیہ کی جانب سے سخت ترین بندشیں عائد کی گئی تھیں، مہینوں تک بندشیں عائد رہنے اور بعد ازاں کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے عائد لاک ڈائون کی وجہ سے جہاں عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی وہیں عدالتوں کے کام کاج پر بھی کافر اثر پڑا۔
عدالت عالیہ کے علاوہ ضلع کی دیگر عدالتوں میں پیروی کر رہے وکیل شبیر احمد بٹ کا ماننا ہے کہ ’’عدالتوں کا ہر جگہ یہی حال ہے۔ عدالتیں معاملات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن گزشتہ تین مہینوں سے کافی معاملات پر سنوائی نہیں ہو پائی۔ جس وجہ سے آنے والے دنوں میں عدالتوں پر مزید دباؤ پڑ سکتا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا اور یہ تمام معاملات بھی حل کیے جائیں گے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وقت عدالت میں صرف اہم معاملات پر ہی سنوائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’’آنے والے دنوں میں جیسے ہی رعایتیں دی جائیں گی اور عدالتیں دوبارہ سے پورے آب و تاب کے ساتھ کام کرنا شروع کریں گی۔ عوام کے تمام مسائل وقت رہتے حل ہو جائیں گے۔‘‘