ETV Bharat / state

Prof. Rehman Rahi Passes Away کشمیری ادب کے ایک دور کا خاتمہ، پروفیسر رحمان راہی کا انتقال

کشمیر کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر رحمان راہی کا انتقال ہو گیا ہے۔ پروفیسر رحمان راہی نے اپنی رہائش گاہ ویچار ناگ سرینگر میں آخری سانس لی۔ وہ تقریباً 98 برس کے تھے۔ Prof. Rehman Rahi Passes Away

Professor Rehman Rahi passes away
Professor Rehman Rahi passes away
author img

By

Published : Jan 9, 2023, 11:15 AM IST

Updated : Jan 9, 2023, 5:51 PM IST

رحمان راہی کے جلوس جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت

سرینگر: کشمیر کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر رحمان راہی کا سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوا۔ وہ اٹھانوے برس کے تھے۔ ان کی وفات سے کشمیر ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر، دانشور اور موجودہ تاریخ کے حساس ترین چشم دید گواہوں سے محروم ہوگیا۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری کے صدر کی حیثیت سے طویل تدریسی کیریر کے بعد پروفیسر راہی، ہمہ وقت شاعری اور تصنیف کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کے گھریلو ذرائع کے مطابق انہوں نے وچار ناگ صورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر سکون کے ساتھ آخری سانس لی۔ Poet and Gyanpeeth Awardee Prof Rehman Rahi Passes Away

امریکہ سے شائع ہونے والے مقتدر کشمیر رسالے نیب کے مدیر منیب الرحمان نے لکھا کہ رحمان راہی کی وفات جدید کشمیری لٹریچر کے ایک دور کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک عظیم نقصان ہے۔ سرکردہ شاعر پروفیسر شفق سوپوری کے مطابق رحمان راہی جامع الکمالات تھے۔ انگریزی اور فارسی پر کمال کی دسترس تھی۔ جنہوں نے راہی کو دیکھا ہے انکی سات پشتیں ان پر فخر کریں گی۔ انکی خوش قسمتی کی تو بات ہی نہیں، جنہیں راہی کی صحبت نصیب ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ راہی نے کشمیری شاعری کے لہجے کو مہجور کے اثر سے آزاد کرکے نئے رجحانات سے آشنا کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے جدت کے راستے کھول دیے۔

پروفیسر راہی گزشتہ کئی برسوں سے صاحب فراش تھے اور انکی سرگرمیاں گھر کی چار دیواری تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ کورونا وبا کے بعد ان کا میل جول تقریباً بند ہوگیا تھا۔ کئی برسوں سے انہوں نے میڈیا اور ادبی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ اور ادبی تقاریب میں شریک ہونا بھی بند کردیا تھا۔ کشمیری لٹریچر میں رحمان راہی وہ واحد شخصیت تھے جنہیں حکومت ہند کی جانب سے ادیبوں کو دیے جانے والے سب سے بڑے قومی ایوارڈ یعنی گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سنہ 2008 میں انہیں اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ہاتھوں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا۔ کشمیری زبان اور شاعری میں لامثال ادبی خدمات انجام دینے والے پروفیسر راہی نے تقریباً ایک درجن کتابیں تصنیف کیں اور متعدد کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں نیز سینکڑوں طلبہ و اسکالرز کی رہنمائی بھی کی ہے۔

منموہن سنگھ کے ہاتھوں گیان پیٹھ ایوارڈ لیتے ہوئے رحمان راہی
منموہن سنگھ کے ہاتھوں گیان پیٹھ ایوارڈ لیتے ہوئے رحمان راہی

پائین شہر کے وازہ پورہ، راجوری کدل سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رحمان راہی کا اصل نام عبدالرحمان وازہ تھا۔ انہوں نے 1948 میں محکمہ پبلک ورکس میں بحیثیت کلرک کام کیا تھا اور انکا تبادلہ سوپور قصبے میں ہوا تھا لیکن یہ کام انہیں راس نہیں آیا اور انہون نے استعفیٰ دیکر تعلیم و تعلم کا شعبہ اختیار کیا۔ انہوں نے ایک مقامی اخبار کے مدیر کے طور بھی اپنے فرائض انجام دیے۔ سنہ 1952 میں انہوں نے فارسی اور پھر انگریزی زبان میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔بعد میں وہ کشمیر یونیورسٹی میں بطور استاد اپنے فرائض انجام دیتے رہے جہاں انکی شخصیت میں نکھار آگیا اور وہ ایل مقتدر شاعر ، نقاد اور محقق کے طور ابھر گئے۔ انکے مداحوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ انکی کئی نظمیں جب ساز پر اتاری گئیں تو زبان زد عام ہوگئیں۔ آنجہانی وجے کمار ملا کی زبان میں گایا گیا نغمہ، زندہ روزنہ باپتھ چھ مران لکھ، ژہ مرکھ نا، لوتہ پاٹھ چیکھاہ پیالہ کیہو اف تہ کرکھ نا، آج بھی لوگوں میں کافی مقبول ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Eminent Kashmiri Poet Mushtaq Kashmiri Passes away: نامور شاعر مشتاق کشمیری کا انتقال

پروفیسر رحمان راہی کو سنہ 1961 میں ان کے شعری مجموعے 'نوروز صبا' کے لیے بھارتی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، سنہ 2000 میں پدم شری ایوارڈ اور 2007 میں بھارت کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ وہ پہلے کشمیری ادیب تھے جنہیں شعری مجموعہ سیاہ رود جرین منز (سیاہ بوندا باندی) کے لیے بھارت کے اعلی ترین ایوارڈ گیان پیٹھ سے نوازا گیا۔ وہ اپنے طالب علمی کے دور میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف کشمیر کے کلچرل ونگ سے بھی وابستہ رہے تھے۔ مترجم کی حیثیت سے انہوں نے بابا فرید کی صوفی شاعری کا بہترین ترجمہ کیا۔ کشمیر میں نوے کے دہائی میں شروع ہونے والے علیحدگی پسند تحریک کے دوران رحمان راہی نے نہ صرف اشارتاً اور کنایتاً ، اپنی قوم کی زبون حالی پر تبصرے کئے بلکہ کئی بار انہوں نے عملی طور عوامی خواہشات کے اظہار کیلئے تقریبات میں حصہ لیا۔ انہیں کئی بار سرینگر میں علیحدگی پسندوں کے ہمراہ سیمینارز اور دھرنوں میں دیکھا گیا۔ اس وقت تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا پانے والے لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کے ساتھ مائسمہ میں انہوں نے کئی بار دھرنوں میں حصہ لیا۔

رحمان راہی کے جلوس جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت

سرینگر: کشمیر کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر رحمان راہی کا سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوا۔ وہ اٹھانوے برس کے تھے۔ ان کی وفات سے کشمیر ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر، دانشور اور موجودہ تاریخ کے حساس ترین چشم دید گواہوں سے محروم ہوگیا۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری کے صدر کی حیثیت سے طویل تدریسی کیریر کے بعد پروفیسر راہی، ہمہ وقت شاعری اور تصنیف کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کے گھریلو ذرائع کے مطابق انہوں نے وچار ناگ صورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر سکون کے ساتھ آخری سانس لی۔ Poet and Gyanpeeth Awardee Prof Rehman Rahi Passes Away

امریکہ سے شائع ہونے والے مقتدر کشمیر رسالے نیب کے مدیر منیب الرحمان نے لکھا کہ رحمان راہی کی وفات جدید کشمیری لٹریچر کے ایک دور کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک عظیم نقصان ہے۔ سرکردہ شاعر پروفیسر شفق سوپوری کے مطابق رحمان راہی جامع الکمالات تھے۔ انگریزی اور فارسی پر کمال کی دسترس تھی۔ جنہوں نے راہی کو دیکھا ہے انکی سات پشتیں ان پر فخر کریں گی۔ انکی خوش قسمتی کی تو بات ہی نہیں، جنہیں راہی کی صحبت نصیب ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ راہی نے کشمیری شاعری کے لہجے کو مہجور کے اثر سے آزاد کرکے نئے رجحانات سے آشنا کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے جدت کے راستے کھول دیے۔

پروفیسر راہی گزشتہ کئی برسوں سے صاحب فراش تھے اور انکی سرگرمیاں گھر کی چار دیواری تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ کورونا وبا کے بعد ان کا میل جول تقریباً بند ہوگیا تھا۔ کئی برسوں سے انہوں نے میڈیا اور ادبی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ اور ادبی تقاریب میں شریک ہونا بھی بند کردیا تھا۔ کشمیری لٹریچر میں رحمان راہی وہ واحد شخصیت تھے جنہیں حکومت ہند کی جانب سے ادیبوں کو دیے جانے والے سب سے بڑے قومی ایوارڈ یعنی گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سنہ 2008 میں انہیں اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ہاتھوں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا۔ کشمیری زبان اور شاعری میں لامثال ادبی خدمات انجام دینے والے پروفیسر راہی نے تقریباً ایک درجن کتابیں تصنیف کیں اور متعدد کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں نیز سینکڑوں طلبہ و اسکالرز کی رہنمائی بھی کی ہے۔

منموہن سنگھ کے ہاتھوں گیان پیٹھ ایوارڈ لیتے ہوئے رحمان راہی
منموہن سنگھ کے ہاتھوں گیان پیٹھ ایوارڈ لیتے ہوئے رحمان راہی

پائین شہر کے وازہ پورہ، راجوری کدل سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رحمان راہی کا اصل نام عبدالرحمان وازہ تھا۔ انہوں نے 1948 میں محکمہ پبلک ورکس میں بحیثیت کلرک کام کیا تھا اور انکا تبادلہ سوپور قصبے میں ہوا تھا لیکن یہ کام انہیں راس نہیں آیا اور انہون نے استعفیٰ دیکر تعلیم و تعلم کا شعبہ اختیار کیا۔ انہوں نے ایک مقامی اخبار کے مدیر کے طور بھی اپنے فرائض انجام دیے۔ سنہ 1952 میں انہوں نے فارسی اور پھر انگریزی زبان میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔بعد میں وہ کشمیر یونیورسٹی میں بطور استاد اپنے فرائض انجام دیتے رہے جہاں انکی شخصیت میں نکھار آگیا اور وہ ایل مقتدر شاعر ، نقاد اور محقق کے طور ابھر گئے۔ انکے مداحوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ انکی کئی نظمیں جب ساز پر اتاری گئیں تو زبان زد عام ہوگئیں۔ آنجہانی وجے کمار ملا کی زبان میں گایا گیا نغمہ، زندہ روزنہ باپتھ چھ مران لکھ، ژہ مرکھ نا، لوتہ پاٹھ چیکھاہ پیالہ کیہو اف تہ کرکھ نا، آج بھی لوگوں میں کافی مقبول ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Eminent Kashmiri Poet Mushtaq Kashmiri Passes away: نامور شاعر مشتاق کشمیری کا انتقال

پروفیسر رحمان راہی کو سنہ 1961 میں ان کے شعری مجموعے 'نوروز صبا' کے لیے بھارتی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، سنہ 2000 میں پدم شری ایوارڈ اور 2007 میں بھارت کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ وہ پہلے کشمیری ادیب تھے جنہیں شعری مجموعہ سیاہ رود جرین منز (سیاہ بوندا باندی) کے لیے بھارت کے اعلی ترین ایوارڈ گیان پیٹھ سے نوازا گیا۔ وہ اپنے طالب علمی کے دور میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف کشمیر کے کلچرل ونگ سے بھی وابستہ رہے تھے۔ مترجم کی حیثیت سے انہوں نے بابا فرید کی صوفی شاعری کا بہترین ترجمہ کیا۔ کشمیر میں نوے کے دہائی میں شروع ہونے والے علیحدگی پسند تحریک کے دوران رحمان راہی نے نہ صرف اشارتاً اور کنایتاً ، اپنی قوم کی زبون حالی پر تبصرے کئے بلکہ کئی بار انہوں نے عملی طور عوامی خواہشات کے اظہار کیلئے تقریبات میں حصہ لیا۔ انہیں کئی بار سرینگر میں علیحدگی پسندوں کے ہمراہ سیمینارز اور دھرنوں میں دیکھا گیا۔ اس وقت تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا پانے والے لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کے ساتھ مائسمہ میں انہوں نے کئی بار دھرنوں میں حصہ لیا۔

Last Updated : Jan 9, 2023, 5:51 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.