سرینگر: وادی کشمیر میں سٹرابیری، چیری اور پلم (آڑو) کے کٹائی کا موسم جولائی کے وسط سے اگست مہینے کے آخر تک رہتا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سال زیادہ بارشوں کی وجہ سے سٹرابیری اور چیری کی طرح پلم کی پیداوار بھی کم ہوئی ہے اور بیشتر موہ خراب ہو گئے ہیں۔ پلم اور سیب کے کاشتکار غلام رسول کا کہنا ہے کہ دیگر کاشتکاروں کی طرح ان کو بھی امید تھی کہ امسال کاشت گزشتہ برس کے مقابلے بہتر ہوگی تاہم ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے باغ سے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں پلم کے ڈبے (پانچ کالو وژن) منڈی میں جاتے تھے تاہم امسال ابھی تک صرف چند سو ہی جا پاے ہیں اور ان کی قیمت بھی اچھی نہیں مل رہی کیونکہ یا تو موہ خراب ہو گیا ہے اور یا پھر بارش کی وجہ سے ان پر ڈاغ پڑگئے ہیں۔ غلام رسول سرینگر شہر کے مضافات میں رہتے ہیں اور پہلے صرف سیب کی کاشت کرتے تھے تاہم بعد میں اپنے باغات میں پلم بھی اگانا شروع کر دیا کیونکہ اس میں محنت کم اور منافع زیادہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ سیب سے زیادہ پلم کی دیکھ رکھ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوائی کا چھڑکاو بھی ایک بار کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی کاشتکاری اچھی ہوتی ہے اور آمدنی بھی اچھی ہوتی تھی۔ گزشتہ برس میوے چھوٹے تھے لیکن اس سال تو بس یہ سوچ رہے ہیں کہ ہماری لگات واپس آ جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تقریبا پانچ کلو وزنی پلم کا ایک بڑا ڈبہ 200 سے 250 روپے میں فروخت ہوتا ہے، جبکہ دو کلو گرام کا چھوٹا ڈبہ ہمیں ہول سیل فروٹ منڈی میں 100 سے 120 روپے میں ملتا ہے۔
واضح رہے کہ کشمیر ہر سال بڑی مقدار میں پلم پیدا کرتا ہے۔ محکمہ باغبانی کے مطابق کشمیر میں گزشتہ موسموں میں اوسطاً تقریباً 8000 ٹن پلم پیدا ہوا۔ وادی کشمیر میں تقریباً 1500 ہیکٹر اراضی پلم کی کاشت کے تحت ہے۔ وادی میں سب سے زیادہ پلم ضلع بڈگام میں پیدا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف ہارٹیکلچر کشمیر کے پاس دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کشمیر 7,710 ٹن اور جموں 4,150 ٹن پلم پیدا کرتا ہے۔ 11,860 ٹن کی کل پیداوار میں سے بڈگام 2,719 ٹن پیدا کرتا ہے، جو اضلاع میں سب سے زیادہ ہے اور اس کے بعد گاندربل ہے۔
مزید پڑھیں: Farmers Worried Due To Bad Weather: خراب موسمی صورتحال کے باعث کاشتکار پریشان
وہیں محکمے کے مطابق کشمیر میں پیدا ہونے والی تین اہم اقسام میں سے ایک سنٹروس پلم ہے۔ روایتی طور پر یہ وادی میں پلم کے کاشتکاروں کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ یہ کھٹا میٹھا موہ سرینگر سمیت وادی کے دیگر کئی اضلاع میں پیدا ہوتا ہے جبکہ دیگر دو اقسام یعنی سلور پلم اور چوگندھرا صرف چھوٹے پیمانے پر کاشت کئے جاتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے فون پر بات کرتے ہوئے پاریم پورہ کے فروٹ منڈی کے صدر بشیر احمد بشیر نے کہا کہ اس سال پیداوار بہت کم ہے۔ اس سال ناموافق موسمی حالات کی وجہ سے ہر جگہ پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ ہم نے ابھی تک نقصانات کا تخمینہ لگانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاریم پورہ مارکیٹ سے پلم کا ایک بڑا حصہ براہ راست دہلی اور پنجاب کے بازاروں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سے اسے دوسری منڈیوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ پلم ایک انتہائی نازک موہ ہے۔ اس کی شیلف لائف بھی بہت محدود ہے۔ اس کی شیلف لائف کو بڑھانے کے لیے، کسان جولائی کے وسط میں کٹائی کرتے ہیں۔