ETV Bharat / state

کشمیر میں ذہنی مرض کا گراف مزید بڑھ رہا ہے - Corona lockdown

کورونا وائرس کے خوف اور اس کے پیش نظر نافذ لاک ڈاؤن سے وادی کشمیر میں ذہنی صحت کی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے جس کے باعث جہاں ایک طرف گھروں کا چین وسکون برباد ہورہا ہے وہیں یہ وبا کورونا وبا سے بھی بھیانک صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔

کشمیر میں ذہنی مرض کا گراف مزید بڑھ رہا ہے
کشمیر میں ذہنی مرض کا گراف مزید بڑھ رہا ہے
author img

By

Published : Apr 27, 2020, 3:38 PM IST

ادھر وادی میں بعض تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں جو لاک ڈاؤن کے بیچ ذہنی مریضوں کو ضروری سہولیات بہم پہنچانے میں مصروف عمل ہیں۔

ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ وادی میں پہلے ہی ہر پانچ افراد میں سے تین افراد ذہنی مریض ہیں اور کورونا وبا اور اس کے پیش نظر لاک ڈاؤن سے صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔

ذہنی مریضوں کو مدد بہم پہنچانے والے ایک ادارہ 'اتفاق، یونائیٹڈ وی سٹینڈ' سے وابستہ اور انسٹی چیوٹ آف منٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنسز کشمیر کی ریسرچ اسکالر نادیہ اشفاق کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ خوف کو دور کرنے کے متعلق ہم سے کافی سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس خوف کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ کورونا وائرس کے متعلق اپ ٹو ڈیٹ رہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والے ہر پوسٹ کو پڑھیں نہ اور شیئر کریں۔

موصوفہ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ذہنی مریضوں کو اس مشکل گھڑی میں ماہرین نفسیات کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور انہیں دیگر ضروری مشورے دینے کے لئے اقدام کررہا ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ وادی میں پانچ اگست کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے باعث ذہنی مرض ایک وبا کی شکل اختیار کرگیا تھا لیکن اب کورونا وبا نے اس کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وادی میں مختلف شعبہ ہائے حیات جیسے سیاحت، ٹرانسپورٹ سے جڑے لوگوں اور دیگر تجارت پیشہ لوگ بالخصوص مزدور طبقے میں ذرائع معاش مفقود ہونے کے باعث ذہنی مرض نہ صرف مزید سنگین ہوگیا ہے بلکہ اس نے مزید لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا ہے اور صحت یاب ہوئے مریضوں میں بھی یہ بیماری دوبارہ زندہ ہوگئی ہے۔

محمد علی نامی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری نے کہا کہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ذہنی مرض میں اضافہ ہوا ہے اور وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن سے لوگوں خاص کر ٹرانسپورٹ اور سیاحت سے جڑے لوگوں، دکانداروں، مزدروں، ریڈہ بانوں کا روز گار متاثر ہونے سے وہ ایسی پریشانیوں میں گرفتار ہوئے ہیں جو ذہنی صحت پر اثر انداز ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں سے نہ صرف ان کے خاندان کا امن وسکون درہم و برہم ہوگا بلکہ معاشرے پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

سینئر ذہنی صحت تھراپسٹ نازیہ رشید کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خوف سے ہمارے تمام کام متاثر ہوجاتے ہیں لہٰذا اپنی ذہنی صحت کو صحت مند رکھنے کے

لئے ہمیں لاک ڈاؤن کو معمولات کا حصہ بنالینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ذہنی صحت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھی وقت دیں اور گھر والوں کے ساتھ بھی ٹھیک وقت گذاریں۔

موصوفہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی خوراک کی طرف خاص توجہ دینے اور کورونا کے بارے میں جاری کی جارہی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ ہم اس وبا سے بھی محفوظ رہ سکیں اور ہمارا ذہنی صحت بھی برقرار رہ سکے۔

قابل ذکر ہے کہ سن 2015 میں ڈاکٹرس ودآوٹ بارڈرس اور انسٹی چیوٹ آف منٹل ہیلتھ اور نیورو سائنسز سری نگر نے کشمیر میں ذہنی صحت پر ایک جامع سروے کیا جس میں یہ پایا گیا ہے کہ یہاں ذہنی صحت کے مسائل وباء کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

متذکرہ سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ 18 لاکھ کشمیری، جو یہاں کی آبادی کا 45 فیصد حصہ بنتا ہے، میں ذہنی امراض کی علامتیں موجود ہیں۔ سروے میں پایا گیا تھا کہ وادی میں 16 لاکھ بالغان میں ڈپریشن کی واضح علامتیں موجود ہیں۔ دس لاکھ ایسے ہیں جن میں اینگزائٹی (ذہنی دبائو) کی علامتیں موجود ہیں۔ 93 فیصد کشمیری وہ ہیں جنہیں وادی میں جاری شورش کے متعلق ٹراما کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ادھر وادی میں بعض تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں جو لاک ڈاؤن کے بیچ ذہنی مریضوں کو ضروری سہولیات بہم پہنچانے میں مصروف عمل ہیں۔

ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ وادی میں پہلے ہی ہر پانچ افراد میں سے تین افراد ذہنی مریض ہیں اور کورونا وبا اور اس کے پیش نظر لاک ڈاؤن سے صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔

ذہنی مریضوں کو مدد بہم پہنچانے والے ایک ادارہ 'اتفاق، یونائیٹڈ وی سٹینڈ' سے وابستہ اور انسٹی چیوٹ آف منٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنسز کشمیر کی ریسرچ اسکالر نادیہ اشفاق کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ خوف کو دور کرنے کے متعلق ہم سے کافی سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس خوف کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ کورونا وائرس کے متعلق اپ ٹو ڈیٹ رہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والے ہر پوسٹ کو پڑھیں نہ اور شیئر کریں۔

موصوفہ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ذہنی مریضوں کو اس مشکل گھڑی میں ماہرین نفسیات کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور انہیں دیگر ضروری مشورے دینے کے لئے اقدام کررہا ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ وادی میں پانچ اگست کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے باعث ذہنی مرض ایک وبا کی شکل اختیار کرگیا تھا لیکن اب کورونا وبا نے اس کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وادی میں مختلف شعبہ ہائے حیات جیسے سیاحت، ٹرانسپورٹ سے جڑے لوگوں اور دیگر تجارت پیشہ لوگ بالخصوص مزدور طبقے میں ذرائع معاش مفقود ہونے کے باعث ذہنی مرض نہ صرف مزید سنگین ہوگیا ہے بلکہ اس نے مزید لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا ہے اور صحت یاب ہوئے مریضوں میں بھی یہ بیماری دوبارہ زندہ ہوگئی ہے۔

محمد علی نامی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری نے کہا کہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ذہنی مرض میں اضافہ ہوا ہے اور وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن سے لوگوں خاص کر ٹرانسپورٹ اور سیاحت سے جڑے لوگوں، دکانداروں، مزدروں، ریڈہ بانوں کا روز گار متاثر ہونے سے وہ ایسی پریشانیوں میں گرفتار ہوئے ہیں جو ذہنی صحت پر اثر انداز ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں سے نہ صرف ان کے خاندان کا امن وسکون درہم و برہم ہوگا بلکہ معاشرے پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

سینئر ذہنی صحت تھراپسٹ نازیہ رشید کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خوف سے ہمارے تمام کام متاثر ہوجاتے ہیں لہٰذا اپنی ذہنی صحت کو صحت مند رکھنے کے

لئے ہمیں لاک ڈاؤن کو معمولات کا حصہ بنالینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ذہنی صحت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھی وقت دیں اور گھر والوں کے ساتھ بھی ٹھیک وقت گذاریں۔

موصوفہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی خوراک کی طرف خاص توجہ دینے اور کورونا کے بارے میں جاری کی جارہی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ ہم اس وبا سے بھی محفوظ رہ سکیں اور ہمارا ذہنی صحت بھی برقرار رہ سکے۔

قابل ذکر ہے کہ سن 2015 میں ڈاکٹرس ودآوٹ بارڈرس اور انسٹی چیوٹ آف منٹل ہیلتھ اور نیورو سائنسز سری نگر نے کشمیر میں ذہنی صحت پر ایک جامع سروے کیا جس میں یہ پایا گیا ہے کہ یہاں ذہنی صحت کے مسائل وباء کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

متذکرہ سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ 18 لاکھ کشمیری، جو یہاں کی آبادی کا 45 فیصد حصہ بنتا ہے، میں ذہنی امراض کی علامتیں موجود ہیں۔ سروے میں پایا گیا تھا کہ وادی میں 16 لاکھ بالغان میں ڈپریشن کی واضح علامتیں موجود ہیں۔ دس لاکھ ایسے ہیں جن میں اینگزائٹی (ذہنی دبائو) کی علامتیں موجود ہیں۔ 93 فیصد کشمیری وہ ہیں جنہیں وادی میں جاری شورش کے متعلق ٹراما کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.