سرینگر: گزشتہ برسوں کے دوران وادی کشمیر میں اگرچہ خون عطیہ کرنے کی شرح میں 20 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہوئی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی مختلف ہسپتالوں کے بلڈ بینکس کو درکار خون کی کمی رہتی ہے۔ایسے میں زیادہ زیادہ افراد کو رضاکارانہ طور خون کا عطیہ کرنا چائیے۔ان باتوں کے اظہار لل دید اہسپتال کے بلڈ بینک آفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوۓ کہا ۔
انہوں نے کہا کہ خون عطیہ کرنے سے متعلق لوگوں میں اب کافی بیداری پیدا ہوئی ہے،جس کے نیتجے میں نوجوان رضاکارانہ طور بلڈ ڈونیٹ کرتے رہتے ہیں، تاہم اس حوالے سے مزید آگاہی کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ چند برس قبل خون عطیہ کرنے میں ڈر محسوس کیا جاتا تھا، لیکن اب ایسے بہت کم لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو کہ کمزور ہونے کے خوف سے خون عطیہ کرنے سے کتراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کسی بھی حادثاتی صورتحال،شدید بیماری یا سرجری کی صورت میں انسان کو خون یا پلازما وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے،جس کے لیے عطیہ کئے جانے والے خون کو استعمال میں لاکر کسی بھی وقت قیمیتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ کشمیر صوبے میں قائم 14 ہزار سے زائد طبی اداروں کو خون سپلائی کرنے کے لیے صرف 42 بلڈ بینک اور سینٹر موجود ہیں ۔لل دید ہسپتال کے بلڈ بینک کے آفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال خان کہتے ہیں کہ ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 30 سے 40 پوائنٹس خون کی ضرورت رہتی ہے۔ صحت مند انسان کو سال میں کم سےکم دو بار خون کا عطیہ ضرور دینا چائیے اور ایسا کرنے سے صحت پر کسی قسم کی کوئی کمزوری یا منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔