ETV Bharat / state

پاکستان اپنی 'شیطانی' حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے: بصیر خان - شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر

لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر بصیر احمد خان نے کہا کہ پاکستان اپنی 'شیطانی' حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے اور اس کی گذشتہ 70 برسوں سے کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وادی کشمیر میں افراتفری پھیلائی جائے اور نوجوانوں کو ورغلایا جائے۔

Baseer Khan
بصیر خان
author img

By

Published : Oct 22, 2020, 5:26 PM IST

ان کے بقول پاکستان کی پشت پناہی والے حملہ آوروں کی جانب سے 22 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر پر کئے گئے حملے کے دوران جو یہاں پر قتل عام اور لوٹ مار کی وارداتیں پیش آئی ہیں ان کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی ہے۔

بصیر خان نے یہ باتیں جمعرات کو یہاں شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کنارے پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں 22 اکتوبر 1947 کی یادوں کو دہرانے کے لئے منعقدہ دو روزہ سمپوزیم و نمائش کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ '22 اکتوبر 1947 جیسے واقعات کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ابھی بھی اپنی شیطانی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے۔ ان کی 70 برسوں سے یہی کوشش رہی ہے کہ یہاں کسی نہ کسی طرح افراتفری پھیلائی جائے، لوگوں کے لئے پریشانیاں پیدا کی جائیں اور ہمارے نوجوانوں کو ورغلایا جائے۔ آپ کو ان تمام چیزوں سے با خبر رہنے کی ضرورت ہے۔ یکجٹ ہو کر ہی ہم دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں'۔
بصیر خان نے کہا کہ 22 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر پر کئے گئے حملے کے دوران جو یہاں پر قتل عام اور لوٹ مار کی وارداتیں پیش آئی ہیں ان کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں یہاں کا ایک مقامی باشندہ ہوں۔ میں یہیں پیدا ہوا ہوں میری یہیں پر پرورش ہوئی ہے۔ یہاں 22 اکتوبر 1947 کو کیا ہوا ہم مقامی باشندے اس سے بخوبی واقف ہیں'۔

انہوں نے کہا: 'ہمیں اپنے باب دادائوں یا رشتہ داروں نے جو بتایا ہے وہ ہمارے دشمن پاکستان کی چالوں اور مذموم ارادوں کو بیان کرتا ہے جس کے تحت انہوں نے 22 اکتوبر 1947 کو قبائلی اور ملیشیا کی مدد سے یہاں پر حملہ کروایا۔ خاص طور پر جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس دوران جو یہاں پر قتل عام، لوٹ مار ہوا اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملتی ہو'۔

لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر نے کہا کہ 22 اکتوبر کا حملہ کسی مخصوص کمیونٹی کے خلاف نہیں بلکہ یہ تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کے خلاف تھا۔
انہوں نے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہا: 'آپ چونکہ نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اس چیز کی خاص ضرورت ہے کہ 22 اکتوبر 1947 کے واقعات سے آپ کو روبرو کرایا جائے'۔

بصیر خان نے کہا کہ جتنی لوٹ مار بارہمولہ، اوڑی اور باقی جگہوں پر ہوئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ 'قصبہ بارہمولہ 1947 تک ایک بہت بڑا تجارتی مرکز تھا۔ حملہ آوروں نے پاکستانی فوج کی مدد سے وہاں پر سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ دن دہاڑے اتنا قتل غارت ہوا کہ شالہ ٹینگ کا پل لاشوں سے بھرا تھا۔ ہر طرف خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ لوگ اپنے کاروبار کو چھوڑ کر وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے'۔

بصیر خان نے کہا کہ میں ان لوگوں کو داد اور سلام پیش کرتا ہوں جو ہماری فوج اور ایئر فورس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان لوگوں نے مزاحمت کرنے کے علاوہ فوج کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جس کی بدولت حملہ آوروں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مقبول شیروانی جیسے لوگوں کو سلام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں نے خصوصی ٹکڑیاں بنائی تھیں تاکہ حملہ آوروں کو واپس دھکیلا جائے'۔

ان کے بقول پاکستان کی پشت پناہی والے حملہ آوروں کی جانب سے 22 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر پر کئے گئے حملے کے دوران جو یہاں پر قتل عام اور لوٹ مار کی وارداتیں پیش آئی ہیں ان کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی ہے۔

بصیر خان نے یہ باتیں جمعرات کو یہاں شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کنارے پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں 22 اکتوبر 1947 کی یادوں کو دہرانے کے لئے منعقدہ دو روزہ سمپوزیم و نمائش کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ '22 اکتوبر 1947 جیسے واقعات کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ابھی بھی اپنی شیطانی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے۔ ان کی 70 برسوں سے یہی کوشش رہی ہے کہ یہاں کسی نہ کسی طرح افراتفری پھیلائی جائے، لوگوں کے لئے پریشانیاں پیدا کی جائیں اور ہمارے نوجوانوں کو ورغلایا جائے۔ آپ کو ان تمام چیزوں سے با خبر رہنے کی ضرورت ہے۔ یکجٹ ہو کر ہی ہم دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں'۔
بصیر خان نے کہا کہ 22 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر پر کئے گئے حملے کے دوران جو یہاں پر قتل عام اور لوٹ مار کی وارداتیں پیش آئی ہیں ان کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں یہاں کا ایک مقامی باشندہ ہوں۔ میں یہیں پیدا ہوا ہوں میری یہیں پر پرورش ہوئی ہے۔ یہاں 22 اکتوبر 1947 کو کیا ہوا ہم مقامی باشندے اس سے بخوبی واقف ہیں'۔

انہوں نے کہا: 'ہمیں اپنے باب دادائوں یا رشتہ داروں نے جو بتایا ہے وہ ہمارے دشمن پاکستان کی چالوں اور مذموم ارادوں کو بیان کرتا ہے جس کے تحت انہوں نے 22 اکتوبر 1947 کو قبائلی اور ملیشیا کی مدد سے یہاں پر حملہ کروایا۔ خاص طور پر جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس دوران جو یہاں پر قتل عام، لوٹ مار ہوا اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملتی ہو'۔

لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر نے کہا کہ 22 اکتوبر کا حملہ کسی مخصوص کمیونٹی کے خلاف نہیں بلکہ یہ تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کے خلاف تھا۔
انہوں نے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہا: 'آپ چونکہ نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اس چیز کی خاص ضرورت ہے کہ 22 اکتوبر 1947 کے واقعات سے آپ کو روبرو کرایا جائے'۔

بصیر خان نے کہا کہ جتنی لوٹ مار بارہمولہ، اوڑی اور باقی جگہوں پر ہوئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ 'قصبہ بارہمولہ 1947 تک ایک بہت بڑا تجارتی مرکز تھا۔ حملہ آوروں نے پاکستانی فوج کی مدد سے وہاں پر سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ دن دہاڑے اتنا قتل غارت ہوا کہ شالہ ٹینگ کا پل لاشوں سے بھرا تھا۔ ہر طرف خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ لوگ اپنے کاروبار کو چھوڑ کر وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے'۔

بصیر خان نے کہا کہ میں ان لوگوں کو داد اور سلام پیش کرتا ہوں جو ہماری فوج اور ایئر فورس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان لوگوں نے مزاحمت کرنے کے علاوہ فوج کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جس کی بدولت حملہ آوروں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مقبول شیروانی جیسے لوگوں کو سلام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں نے خصوصی ٹکڑیاں بنائی تھیں تاکہ حملہ آوروں کو واپس دھکیلا جائے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.