اسرائیل کے تیار کردہ ملٹری گریڈ اسپائی ویئر پیگاسس کے ذریعہ صحافیوں، کارکنوں اور سیاست دانوں کی مبینہ جاسوسی کے معاملہ پر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جاسوسی کرنا ان کے لئے حیرانی کی بات نہیں ہے لیکن اپیل جیسی کمپنیاں جو رازداری کے تحفظ کے بڑے دعوے کرتی ہیں لیکن وہ بھی اسپائی ویئر کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا: 'حیرانی کی بات نہیں ہے کہ حکومتیں ایسے سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں جو لوگوں کی جاسوسی کے لئے استحصال کرتی ہیں۔ حیرت انگیز اور مایوس کن بات یہ ہے کہ ایپل جیسی کمپنیاں رازداری اور ڈیٹا سے متعلق تحفظ کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن پیگاسس جیسے اسپائی ویئر کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔'
عالمی میڈیا کی انجمن کے ذریعہ تحقیقات سے ثبوت ملے ہیں کہ این ایس او (نیو، شالیو، اُمری) گروپ کے تیار کردہ پیگاسس کے ذریعہ کشمیر کے صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی۔ ان میں نامور صحافی مزمل جلیل، افتخار گیلانی اور دہلی یونیورسٹی میں عربی کے استاد رہ چکے مرحوم ایس اے آر گیلانی بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پیگاسس کے ذریعہ کشمیری صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی
واضح رہے عالمی میڈیا کے ایک کنسورشیم (انجمن) کے ذریعہ لیک ہوئے ڈیٹا پر مبنی ایک تحقیقات سے یہ ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل میں مقیم سائبر فرم این ایس او گروپ کے تیار کردہ ملٹری گریڈ اسپائی ویئر کا صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی اختلافات رکھنے والوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
پیرس میں مقیم صحافت کی غیر منافع بخش تنظیم فوربیڈن اسٹوریز، انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشل اور 16 نیوز آرگنائزیشن نے مشترکہ طور پر یہ تحقیقات کی ہے۔ انہوں نے 50 ہزار سے زائد صحافیوں کے موبائل فون کی فہرست میں سے 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد کی شناخت کی ہے، جن پر مبینہ طور پر این ایس او کے ذریعہ نگرانی رکھی جارہی تھی۔
اس انجمن کے ایک رکن واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان میں 189 صحافی، 600 سے زائد سیاستداں اور سرکاری اہلکار، کم از کم 65 بزنس ایگزیکیٹیو، 85 انسانی حقوق کے کارکنان اور متعدد اسٹیٹ ہیڈ شامل ہیں۔ جن صحافیوں پر نگرانی رکھی جارہی ہے وہ ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز، سی این این، وال اسٹریٹ جرنل، لی مونڈے اور فینانشیل ٹائمز سمیت اداروں کے لئے کام کرتے ہیں۔