جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے سرینگر میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ’’24 جون کو دارالحکومت دہلی میں منعقد ہوئی کل جماعتی میٹنگ کے دوران کشمیری سیاستدانوں نے جو باتیں کیں وہ صحافیوں کو دیے گئے ویڈیو بیانات سے بالکل برعکس ہیں۔‘‘
سری نگر میں پارٹی دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الطاف بخاری نے کہا کہ ’’کسی نے بھی پاکستان سے بات چیت کا معاملہ اجلاس کے دوران نہیں اٹھایا۔ اس بات کی تصدیق اجلاس میں شامل ہوئے سبھی سیاستدان کر سکتے ہیں۔‘‘
دفعہ 370 کی منسوخی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے بن سکتی لیکن ہم نے معاملے کو سپریم کورٹ میں ترجیحی بنیاد پر سماعت کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’جموں و کشمیر کے باشندگان کی زمین اور نوکریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے غرض سے ہم نے آئینی گارنٹی کا مطالبہ رکھا ہے۔ اس حوالے سے ہم وزیر اعظم سے آٹھ مارچ کو ملے تھے اور ان کو وادی میں حدبندی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ اس کے بعد سرکار نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے لئے میں نے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا شکریہ ادا کیا۔‘‘
حد بندی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’میں نے کل جماعتی اجلاس میں حد بندی کو سنہ 2026 تک ملتوی کرنے کی مانگ کی جسے وزیر داخلہ نے ٹھکرا دیا تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ حدبندی کونسل میں بطور ایسوسیٹ ممبر تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں یا ان جماعتوں کے دو دو ممبران ہوں گے جنہوں نے حال ہی میں منعقد ہوئے ڈی ڈی سی انتخابات میں حصہ لیکر محض ایک یا اس سے زیادہ نشستوں پر جیت درج کی ہو۔‘‘
مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کی حد بندی کمیشن کا اجلاس آج متوقع
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس وقت جموں و کشمیر میں انتخابات کے لیے موزوں وقت ہے؟ الطاف بخاری نے کہا: ’’ہم گزشتہ 32برسوں سے کشمیر کے حالات ایسے ہی دیکھ رہے ہیں، اگر ہم کشمیر میں عسکریت پسندی کو بالکل جڑ سے ختم کرنے کا انتظار کریں گے تو اس میں صدیاں بیت جائیں گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت جموں و کشمیر میں انتخابات کے لیے بالکل موزوں اور صحیح وقت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ زمینی سطح پر لوگوں کا بھی یہی مطالبہ ہے کیوں کہ بیروکریٹ عوام کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔
الطاف بخاری نے کہا کہ لوگوں کے انتخابات اور چنے گئے نمائندوں سے چھوٹے مطالبات ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر بجلی، پانی، سڑک کے ہی مسائل ہوتے ہیں۔