جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں شرمونی اکالی دل دہلی کے صدر سردار پرمجیت سنگھ سرنا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔جس میں انہوں نے وادی کشمیر میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں پرانے بھائی چارے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ "ہم انتظامیہ اور وادی کی تمام اسلامی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں بھرپور تعاون فراہم کیا۔"
واضح رہے کہ 26 جون کو سکھ برادری سے وابستہ افراد نے الزام عائد کیا تھا کہ سرینگر کے رینہ واری علاقے میں ایک مسلم شخص نے ایک سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے ساتھ کورٹ میں شادی کی۔
مظاہرین کے مطابق انکی بیٹیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے اور انکے ساتھ شادی کی جاتی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں بھی اترپردیش کی طرح سخت قانون نافذ کیا جانا چاہئے۔
سردار پرمجیت سنگھ سرنا کا کہنا تھا کہ "ہر مسئلہ بھائی چارے اور محبت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ میں عوام سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھائی چارہ آج تک سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان بنا رہا ہے وہ آگے بھی ویسا ہی رہے۔"سکھ لڑکی کی شادی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "آج پلوامہ کے شادی مرگ علاقے میں لڑکی من پریت کور کی شادی سکھپریت سنگھ کے ساتھ انجام دی گئی۔ شادی دونوں بچوں کی رضامندی سے ممکن ہوئی۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کی اس لڑکی کی پہلے شادی نہیں کی گئی تھی۔ اگر شادی ہوئی ہوتی تو لڑکی کو اس کے والدین کے حوالے کیوں کیا جاتا؟"
انہوں نے دہلی سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے چیئرمین منجندر سنگھ سرسا کی جانب سے دئے گئے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "ہم وادی کی مسلم جماعتوں سے ملے جنہوں نے ہمیں تعاون کی یقین دہانی کی۔ کچھ لوگ دہلی سے یہاں آئے تھے اور یہاں آکر فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ میں ان سب کی جانب سے معافی مانگتا ہوں۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے جو دو برادریوں کے درمیان تناؤ پیدا کرے۔"پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو مل رہی ریزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سکھ برادری کے لئے بھی ریزرویشن ملنی چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ روز ہم لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملے تھے اور ہم نے ان کے سامنے بھی ریزرویشن کی بات رکھی۔'
چند سکھ لیڈران کی جانب سے وادی میں اینٹی کنورژن قانون نافذ کرنے کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "کیا ایسا قانون بننے سے جرائم کم ہو جائیں گے؟ ہم جبرا کچھ بھی کرنے میں بھروسہ نہیں کرتے۔ بیٹی کی شادی آج سب کی رضامندی کے ساتھ ہوئی اور اسی کے ساتھ ہی معاملہ بھی ختم ہوگیا۔"
یہ بھی پڑھیں: 'انصاف کے لیے سول سوسائٹی کو اپنی آواز بلند کرنی چاہیے'
گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منجندر سنگھ سرسا نے دعویٰ کیا تھا کہ "ہماری لڑکی کو اغوا کیا گیا۔ جو سراسر ہمارے مذہب کے خلاف ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "جب سکھوں نے کشمیریوں کی مدد کی تھی تو سید علی گیلانی نے اخبار پر چھپوایا تھا کہ سکھوں نے ہماری مدد کی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج وہ چپ کیوں ہیں؟