سرینگر (جموں و کشمیر): کشمیر کی خوشبودار اور معروف چاول کی قسم ’’مشک بودجی‘‘ بین الاقوامی منڈیوں میں داخلے کے لیے تیار ہے۔ عالمی سطح پر مشک بودجی کی طلب میں اضافہ کے پیش نظر محکمہ زراعت نے زیادہ اس خوشبودار چاول کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے وادی کشمیر میں اس کی کاشت کے علاقوں میں وسعت دی جا رہی ہے۔ مشک بودجی کو حکومت کی کاوشوں کے سبب پہلے ہی ’’جی آئی ٹیگ‘‘ دیا جا چکا ہے اور چاول کی اس نایاب قسم کے ریاستی اور قومی سطح پر تحفظ کے لیے 10 لاکھ روپے کا مالی انعام ’’جینوم سیویئر کمیونٹی ایوارڈ‘‘ (Genome Saviour Community Award) بھی دیا جا چکا ہے۔
اس مخصوص چاول کی قسم کی تقریباً 30 سال قبل زیادہ کاشت کی جاتی تھی۔ تاہم غیر مقامی اور غیر ملکی اقسام کی شالی - جس کی پیداواری صلاحیت زیادہ تھی - کو وادی کشمیر میں متعارف کرائے جانے کے سبب مشک بدجی کی کاشت میں کافی حد تک گراوٹ درج کی گئی۔ مشک بدجی کو دوبارہ عام کرنے کی مہم 2007 میں شروع کی گئی اور اس مخصوص چاول کی کاشت کے لیے مناسب اراضی، آب و ہوا کے لیے مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی۔ ریواول پروگرام کے تحت جنوبی کشمیر کے کوکرناگ علاقے میں ساگم گاؤں اور اس کے ملحقہ دیہات کو مشک بودجی کی کاشت کے ’’ٹرائلز‘‘ کے لیے چنا گیا تھا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران وادی کشمیر میں تقریباً 5,000 کوئنٹل مشک بودجی چاول کی پیداوار درج کی گی ہے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اننت ناگ، گاندربل اور بارہمولہ اضلاع میں مشک بودجی چاول کی پیداوار 2020 میں 14.54 کوئنٹل، 2021 میں 17.45 کوئنٹل، اور 2022 میں 17.38 کوئنٹل درج کی گی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں 44.86 کوئنٹل پیداوار ہوتی ہے۔ جبکہ مشک بودجی کو اننت ناگ، بارہمولہ اور گاندربل کے علاوہ کولگام اور سرحدی ضلع کپوارہ میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سنہ 2020 میں مشک بودجی چاول کی کاشت 244 ہیکٹر، 2021 میں 248 ہیکٹر اور 2022 میں 280 ہیکٹر ہے۔جبکہ اگلے پانچ برسوں کے لیے کشمیر وادی میں مشک بودجی چاول کی توسیع کا مجوزہ منصوبہ 999 ہیکٹر اراضی ہے۔ زرعی یونیوسرٹی کشمیر کے چیف سائنٹسٹ، ایگرونومی ایم آر سی ایف سی، ڈاکٹر تسنیم مبارک مطابق ’’مشک بودجی کشمیر میں ایک روایتی فصل تھی، تاہم دیگر اقسام (کے چاول) کو متعارف کرائے جانے سے اس کی کاشت ترک کی گئی کیونکہ مشک بودجی کے مقابلے میں متعارف کی گئی چاول کی اقسام میں ڈیزیز کا مقابلہ کرنے اور پیداواری صلاحیت بھی زیادہ تھی۔‘‘
ڈاکٹر تسنیم نے فون پر بتایا کہ ’’لیف بلاسٹ (نامی بیماری) سے مشک بودجی کی پیداواری صلاحیت کو کافی نقصان پہنچا، اور اس کے پیش نظر زرعی یونیورسٹی کشمیر نے ایک پروگرام شروع کیا جس میں تمام نمونوں کو اکھٹا کیا گیا اور ان پر ریسرچ کی گئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی اُن تمام جگہوں کی بھی نشاندہی کی جا رہی ہے جہاں اس کی کاشتکاری کے لیے ماحول سازگار ہو۔ ڈاکٹر تسنیم نے دعویٰ کیا کہ ’’یونیورسٹی نے مشک بودجی کا ایک بلاسٹ بیماری سے بچنے والا ورژن بنایا ہے جسے میدانی علاقوں میں کاشت کیا جا سکتا ہے، جو بھی تجرباتی منازل سے گزر رہا ہے۔ اور اس کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Kashmir Holistic Crop Management 'کشمیر میں زراعت کے شعبہ میں جدیدت لانے کا منصوبہ'
دریں اثنا، چوہدری محمد اقبال، ڈائریکٹر محکمہ زراعت کشمیر نے بتایا کہ ’’مشک بودجی چاول جی آئی ٹیگنگ کے زمرے میں ہے اور زیادہ سے زیادہ رقبے (اراضی) پر اس کی کاشت کی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی اسی کی مانگ ہے۔ اس کی کاشت پہلے 120 ہیکٹر رقبہ پر ہوتی تھی جو بڑھا کر 500 ہیکٹر کر دی گئی ہے اور اسے 1000 ہیکٹر تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔‘‘ انہوں مزید کہا کہ مشک بودجی چاول 15,000 سے 20,000 روپے فی کوئنٹل کی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔