ETV Bharat / state

دوران حراست اشرف صحرائی کا انتقال

جموں و کشمیر کے سرکردہ علیحدگی پسند رہنما محمد اشرف صحرائی کی دوران حراست موت واقع ہوگئی ہے، صحرائی کو گزشتہ روز کوٹ بلوال جیل سے جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جس کے بعد سرینگر میں ان کے افراد خانہ کو اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ کشمیر بار ایسوسی ایشن نے ان کی موت کو 'حراستی قتل' سے تعبیر کیا ہے۔

muhammad ashraf sehrai passed away
جموں و کشمیر کے سرکردہ علیحدگی پسند رہنما محمد اشرف صحرائی
author img

By

Published : May 5, 2021, 2:19 PM IST

Updated : May 5, 2021, 8:53 PM IST

اشرف صحرائی، سرکردہ حریت کانفرنس رہنما سید علی گیلانی کے دیرینہ ساتھی تھے، گرفتاری سے قبل انہیں حریت کانفرنس کی اہم اکائی تحریک حریت کشمیر کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا۔

اشرف صحرائی

حکام نے انہیں گزشتہ برس جولائی میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا تھا جس کے بعد انہیں ادھم پور جیل منتقل کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے قبل ان کے فرزند جنید صحرائی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک تصادم میں ہلاک ہوگئے تھے۔ جنید صحرائی حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر تھے۔

اشرف صحرائی

صحرائی کے فرزند مجاہد صحرائی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ جموں پہنچ چکے ہیں لیکن تین گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی تک انہیں میت نہیں دکھائی گئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکام صحرائی کے افراد خانہ سے یہ تحریری ضمانت لینا چاہتے ہیں کہ ان کی میت کو براہ راست لولاب پہنچاکر دفن کیا جائے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ صحرائی کے نماز جنازہ میں لوگوں کی بھاری تعداد جمع ہوسکتی ہے۔

سجاد لون کا ٹویٹ
سجاد لون کا ٹویٹ

شمالی کشمیر کے لولاب کپوارہ میں ٹکی پورہ گاؤں کے رہنے والے 77 سالہ محمد اشرف خان صحرائی، کشمیر کے ان سرکرہ علیحدگی پسند رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے ساری عمر مسئلہ کشمیر کو متنازع مانا اور اس کے حل کے لیے سیاسی طور پر سرگرم رہے۔ وہ کئی برسوں تک جیلوں میں رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے انہیں شدید جسمانی تکالیف کا سامنا تھا۔

وہ 2003 میں گیلانی کی قیادت میں بننے والی تحریک حریت میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ جماعت اسلامی کے ساتھ کئی دہائیوں تک وابستہ رہے۔ وہ اپنے زور خطابت کیلئے نوجوانوں میں کافی مقبول تھے۔

یہ بھی پڑھیں: صوبہ جموں کے تمام اسپتالوں میں معمول کی سرجریز مؤخر

انہوں نے مسلم متحدہ محاذ کی ٹکٹ پر 1987 میں لولاب سے اسمبلی کیلئے الیکشن بھی لڑا تھا۔ یہ الیکشن دھاندلیوں کیلئے بدنام ہوا اور بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر میں مسلح سورش کے آغاز کا ایک محرک ثابت ہوا۔

حکام نے ابھی صحرائی کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم ان کے فرزند نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اسپتال میں ان کی موت واقع ہوئی ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق ان کا فوری کووڈ ٹیسٹ کیا گیا تھا جو منفی آیا تھا۔ تاہم آر ٹی پی سی آر کی رپورٹ ان کے انتقال کے وقت پر سامنے نہیں آئی تھی۔

مجاہد صحرائی کے مطابق انہیں گزشتہ شام کہا گیا کہ ان کے والد کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق صحرائی کی صحت کئی روز سے کافی خراب تھی لیکن افراد خانہ کی اپیلوں کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کووڈ خطرات کے پیش نظر کشمیری سیاسی نظربندوں کو رہا کرنے یا کم از کم کشمیر کی جیلوں میں منتقل کرنے کی اپیل کی تھی۔

بار ایسوسی ایشن نے صحرائی کے انتقال کو 'حراستی قتل' بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی آزادانہ تحقیقات کی جانی چاہئے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ بار نے مقامی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ صحرائی کی میت کو سرینگر منتقل کرنے اور اسے لواحقین کے سپرد کرنے کے انتظامات کرے۔

بار کے مطابق صحرائی کے لواحقین نے ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر تین عرضداشتیں ہائی کورٹ میں پیش کی تھیں لیکن ان پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

پیپلز کانفرنس کے چیئر مین سجاد لون نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'صحرائی صاحب ایک سیاسی لیڈر تھے، دہشت گرد نہیں۔'

'کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ایک بوڑھا، لاغر شخص ملک کیلئے خطرہ بن گیا۔ میں نکتہ چینی نہیں کر رہا ہوں لیکن برائے مہربانی اس پر غور و فکر کیجئے۔ انہیں کیوں قید میں مرنا پڑا بجائے اس کے کہ وہ اپنے گھر میں، اپنے عزیزوں کے درمیان انتقال کرتے۔'

'کشمیر کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ قابل قدر سیاستدان، تنازع کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایک شفاف اور ایماندار سیاستدان نے دہائیاں جیل میں بسر کیں۔' سجاد لون نے ایک اور ٹویٹ میں کہا۔

اشرف صحرائی، سرکردہ حریت کانفرنس رہنما سید علی گیلانی کے دیرینہ ساتھی تھے، گرفتاری سے قبل انہیں حریت کانفرنس کی اہم اکائی تحریک حریت کشمیر کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا۔

اشرف صحرائی

حکام نے انہیں گزشتہ برس جولائی میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا تھا جس کے بعد انہیں ادھم پور جیل منتقل کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے قبل ان کے فرزند جنید صحرائی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک تصادم میں ہلاک ہوگئے تھے۔ جنید صحرائی حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر تھے۔

اشرف صحرائی

صحرائی کے فرزند مجاہد صحرائی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ جموں پہنچ چکے ہیں لیکن تین گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی تک انہیں میت نہیں دکھائی گئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکام صحرائی کے افراد خانہ سے یہ تحریری ضمانت لینا چاہتے ہیں کہ ان کی میت کو براہ راست لولاب پہنچاکر دفن کیا جائے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ صحرائی کے نماز جنازہ میں لوگوں کی بھاری تعداد جمع ہوسکتی ہے۔

سجاد لون کا ٹویٹ
سجاد لون کا ٹویٹ

شمالی کشمیر کے لولاب کپوارہ میں ٹکی پورہ گاؤں کے رہنے والے 77 سالہ محمد اشرف خان صحرائی، کشمیر کے ان سرکرہ علیحدگی پسند رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے ساری عمر مسئلہ کشمیر کو متنازع مانا اور اس کے حل کے لیے سیاسی طور پر سرگرم رہے۔ وہ کئی برسوں تک جیلوں میں رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے انہیں شدید جسمانی تکالیف کا سامنا تھا۔

وہ 2003 میں گیلانی کی قیادت میں بننے والی تحریک حریت میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ جماعت اسلامی کے ساتھ کئی دہائیوں تک وابستہ رہے۔ وہ اپنے زور خطابت کیلئے نوجوانوں میں کافی مقبول تھے۔

یہ بھی پڑھیں: صوبہ جموں کے تمام اسپتالوں میں معمول کی سرجریز مؤخر

انہوں نے مسلم متحدہ محاذ کی ٹکٹ پر 1987 میں لولاب سے اسمبلی کیلئے الیکشن بھی لڑا تھا۔ یہ الیکشن دھاندلیوں کیلئے بدنام ہوا اور بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر میں مسلح سورش کے آغاز کا ایک محرک ثابت ہوا۔

حکام نے ابھی صحرائی کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم ان کے فرزند نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اسپتال میں ان کی موت واقع ہوئی ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق ان کا فوری کووڈ ٹیسٹ کیا گیا تھا جو منفی آیا تھا۔ تاہم آر ٹی پی سی آر کی رپورٹ ان کے انتقال کے وقت پر سامنے نہیں آئی تھی۔

مجاہد صحرائی کے مطابق انہیں گزشتہ شام کہا گیا کہ ان کے والد کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق صحرائی کی صحت کئی روز سے کافی خراب تھی لیکن افراد خانہ کی اپیلوں کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کووڈ خطرات کے پیش نظر کشمیری سیاسی نظربندوں کو رہا کرنے یا کم از کم کشمیر کی جیلوں میں منتقل کرنے کی اپیل کی تھی۔

بار ایسوسی ایشن نے صحرائی کے انتقال کو 'حراستی قتل' بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی آزادانہ تحقیقات کی جانی چاہئے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ بار نے مقامی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ صحرائی کی میت کو سرینگر منتقل کرنے اور اسے لواحقین کے سپرد کرنے کے انتظامات کرے۔

بار کے مطابق صحرائی کے لواحقین نے ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر تین عرضداشتیں ہائی کورٹ میں پیش کی تھیں لیکن ان پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

پیپلز کانفرنس کے چیئر مین سجاد لون نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'صحرائی صاحب ایک سیاسی لیڈر تھے، دہشت گرد نہیں۔'

'کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ایک بوڑھا، لاغر شخص ملک کیلئے خطرہ بن گیا۔ میں نکتہ چینی نہیں کر رہا ہوں لیکن برائے مہربانی اس پر غور و فکر کیجئے۔ انہیں کیوں قید میں مرنا پڑا بجائے اس کے کہ وہ اپنے گھر میں، اپنے عزیزوں کے درمیان انتقال کرتے۔'

'کشمیر کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ قابل قدر سیاستدان، تنازع کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایک شفاف اور ایماندار سیاستدان نے دہائیاں جیل میں بسر کیں۔' سجاد لون نے ایک اور ٹویٹ میں کہا۔

Last Updated : May 5, 2021, 8:53 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.