ETV Bharat / state

Modern Charkha to Revive Pashmina Spinning نیا چرخہ بن رہا ہے آمدنی اور پشمینہ پیداوار کا بہتر ذریعہ

پشمینہ صنعت کشمیر کی قدیم دستکاری صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ چند دہائی قبل یہ دستکاری صنعت اتنے عروج پر تھی کہ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس سے اپنا روزگار کماتی تھیں۔واضح رہے کہ پشمینہ لداخ میں پائی جانے والی خاص بکریوں سے نکالی جانے والی باریک اون ہے۔ اس اون کو کشمیر کے کاریگر ہاتھ سے بنی شالیں تیار کرتے ہیں،جن کی دنیا بھر میں بہت زیادہ مانگ ہے۔

modern-charkha-to-revive-pashmina-spinning-in-kashmir
نیا چرخہ بن رہا ہے آمدنی اور پشمینہ پیداوار کا بہتر ذریعہ
author img

By

Published : Jan 17, 2023, 3:37 PM IST

Updated : Jan 17, 2023, 5:30 PM IST

نیا چرخہ بن رہا ہے آمدنی اور پشمینہ پیداوار کا بہتر ذریعہ

سرینگر:متعارف کیے گئے نئے چرخے نے یاسمینہ ،شائستہ اور مہک جیسی خواتین کو چرخے پر پشمینہ اون کی بارک تاریں کاتنے کی طرف پھر سے مائل کیا ہے۔ اگرچہ ان خواتین نے کم آمدنی اور کم پیدوار کی وجہ سے روائتی چرخے پر سوت کاتنے کو ترک کیا تھا، لیکن اب پیڈل سے چلنے والے جدید چرخوں کے اپنانے سے نہ صرف کتائی کے کام میں آسانی پیدا ہوئی ہے بلکہ ان کی آمدنی میں بھی دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ اتنی ہی ان جدید چرخوں سے پیدوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

زرعی یونیورسٹی کشمیر کے سائنسدانوں نے اس جدید چرخے کو تیار تو کیا ہے، لیکن پشمینہ ایکسپورٹر مجتبی قادری نے اصل پشمینہ صعنت کے احیاء اور ان جدید چرخو کو عام کرنے کے خاطر "می اینڈ جے کے"نام سے ایک تربیتی سنٹر قائم کیا، جس میں خواہش مند خواتین کو 15 دن کی تربیت فراہم کر کے بنا کسی پیسے کے عوض چرخہ اور پشمینہ اون کاتنے کے لیے بھی فراہم کرتے ہیں۔ 2022 کے وسط میں قائم کیے گئے اس سنٹر کے ساتھ اس وقت دو سو سے زائد خواتین جڑی ہوئی ہیں،جن میں کئی ساری خواتین گھر پر ہی کتائی کا کام انجام دے رہی ہے۔

شائستہ بلال اور یاسمینہ کہتی ہیں کہ روائتی چرخے کے مقابلے میں پیڈل سے چلنے والی اس چرخے پر پشمینہ کے اون کے باریک دھاگے کو تیار کرنا نہ صرف بے حد آرام دہ ہے بلکہ یہ چرخہ آمدنی اور پیداوار کے اعتبار سے بھی کافی سود مند ثابت ہورہا ہے۔ اصل کشمیری پشمینہ دنیا بھر میں اپنی ایک منفرف شناخت رکھتا ہے۔کئی صدیوں سے کشمیر میں تیار کیے جارہے ہیں۔ اصل پشمینہ شال کی بنیاد ہاتھ سے اس طرح کی کتائی پر منحصر ہے۔یوں تو ایک وقت میں کشمیر کی متوسط اور غریب خواتین کے لیے یہ کام روزگار کا اہم ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ مشینی دور اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اکثر خواتین نے یہ کام ترک کیا تھا لیکن اب اس نئے چرخے اور آمدنی میں اضافے کی بدولت اب متوسط طبقے کی پڑھی لکھی خواتین بھی اس کام سے جڑ رہی ہے۔مہلک ایم اے کر رہی ہے اور یہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کام کو اپنا کر بہتر طور اپنا روزگار بھی کمار رہی ہے۔

مزید پڑھیں: Kashmiri Pashmina Shawls In FIFA فیفا ورلڈ کپ میں کشمیری پشمینہ شالوں کی دھوم رہی


پشمینہ ایکسپورٹر مجتبی قادری کہتے ہیں اگر صدیوں پرانی کشمیری پشمینہ صنعت کو زندہ رکھنا اور اصل پشمینہ کو فروغ دے کر دنیا میں اس کی بادشاہت کو قائم رکھنا ہے تو بنیادی کتائی کے طریقہ کار کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حضرت میر سید علی ہمدانؒ اسلام کے آفاقی پیغام کے ساتھ ساتھ کئی دستکاری صنعتیں بھی کشمیر لے آئے۔انہیں دستکاریوں میں پشمینہ سازی بھی شامل ہیں۔بتادیں کہ پشمینہ لداخ میں پائی جانے والی خاص بکریوں سے نکالی جانے والی باریک اون ہے۔ اس اون کو کشمیر کے کاریگر ہاتھ سے بنی شالیں تیار کرتے ہیں،جن کی دنیا بھر میں بہت زیادہ مانگ ہے۔ ایک سادہ 100 فیصد ہاتھ سے بنی پشمینہ شال مینوفیکچرنگ کی سطح پر 10 ہزار سے 30 ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔

نیا چرخہ بن رہا ہے آمدنی اور پشمینہ پیداوار کا بہتر ذریعہ

سرینگر:متعارف کیے گئے نئے چرخے نے یاسمینہ ،شائستہ اور مہک جیسی خواتین کو چرخے پر پشمینہ اون کی بارک تاریں کاتنے کی طرف پھر سے مائل کیا ہے۔ اگرچہ ان خواتین نے کم آمدنی اور کم پیدوار کی وجہ سے روائتی چرخے پر سوت کاتنے کو ترک کیا تھا، لیکن اب پیڈل سے چلنے والے جدید چرخوں کے اپنانے سے نہ صرف کتائی کے کام میں آسانی پیدا ہوئی ہے بلکہ ان کی آمدنی میں بھی دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ اتنی ہی ان جدید چرخوں سے پیدوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

زرعی یونیورسٹی کشمیر کے سائنسدانوں نے اس جدید چرخے کو تیار تو کیا ہے، لیکن پشمینہ ایکسپورٹر مجتبی قادری نے اصل پشمینہ صعنت کے احیاء اور ان جدید چرخو کو عام کرنے کے خاطر "می اینڈ جے کے"نام سے ایک تربیتی سنٹر قائم کیا، جس میں خواہش مند خواتین کو 15 دن کی تربیت فراہم کر کے بنا کسی پیسے کے عوض چرخہ اور پشمینہ اون کاتنے کے لیے بھی فراہم کرتے ہیں۔ 2022 کے وسط میں قائم کیے گئے اس سنٹر کے ساتھ اس وقت دو سو سے زائد خواتین جڑی ہوئی ہیں،جن میں کئی ساری خواتین گھر پر ہی کتائی کا کام انجام دے رہی ہے۔

شائستہ بلال اور یاسمینہ کہتی ہیں کہ روائتی چرخے کے مقابلے میں پیڈل سے چلنے والی اس چرخے پر پشمینہ کے اون کے باریک دھاگے کو تیار کرنا نہ صرف بے حد آرام دہ ہے بلکہ یہ چرخہ آمدنی اور پیداوار کے اعتبار سے بھی کافی سود مند ثابت ہورہا ہے۔ اصل کشمیری پشمینہ دنیا بھر میں اپنی ایک منفرف شناخت رکھتا ہے۔کئی صدیوں سے کشمیر میں تیار کیے جارہے ہیں۔ اصل پشمینہ شال کی بنیاد ہاتھ سے اس طرح کی کتائی پر منحصر ہے۔یوں تو ایک وقت میں کشمیر کی متوسط اور غریب خواتین کے لیے یہ کام روزگار کا اہم ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ مشینی دور اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اکثر خواتین نے یہ کام ترک کیا تھا لیکن اب اس نئے چرخے اور آمدنی میں اضافے کی بدولت اب متوسط طبقے کی پڑھی لکھی خواتین بھی اس کام سے جڑ رہی ہے۔مہلک ایم اے کر رہی ہے اور یہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کام کو اپنا کر بہتر طور اپنا روزگار بھی کمار رہی ہے۔

مزید پڑھیں: Kashmiri Pashmina Shawls In FIFA فیفا ورلڈ کپ میں کشمیری پشمینہ شالوں کی دھوم رہی


پشمینہ ایکسپورٹر مجتبی قادری کہتے ہیں اگر صدیوں پرانی کشمیری پشمینہ صنعت کو زندہ رکھنا اور اصل پشمینہ کو فروغ دے کر دنیا میں اس کی بادشاہت کو قائم رکھنا ہے تو بنیادی کتائی کے طریقہ کار کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حضرت میر سید علی ہمدانؒ اسلام کے آفاقی پیغام کے ساتھ ساتھ کئی دستکاری صنعتیں بھی کشمیر لے آئے۔انہیں دستکاریوں میں پشمینہ سازی بھی شامل ہیں۔بتادیں کہ پشمینہ لداخ میں پائی جانے والی خاص بکریوں سے نکالی جانے والی باریک اون ہے۔ اس اون کو کشمیر کے کاریگر ہاتھ سے بنی شالیں تیار کرتے ہیں،جن کی دنیا بھر میں بہت زیادہ مانگ ہے۔ ایک سادہ 100 فیصد ہاتھ سے بنی پشمینہ شال مینوفیکچرنگ کی سطح پر 10 ہزار سے 30 ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔

Last Updated : Jan 17, 2023, 5:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.