ETV Bharat / state

Kashmir Martyrs Day: یوم شہداء کشمیر 13 جولائی 1931 پر ایک نظر

author img

By

Published : Jul 13, 2022, 2:01 AM IST

Updated : Jul 13, 2023, 1:26 PM IST

سنہ 1931 میں 13 جولائی کو کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔Kashmir Martyrs Day

Etv Bharat
Etv Bharat

سرینگر: 13 جولائی سنہ 1931 کو سرینگر میں سینٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں 22 کشمیریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بعد میں سال 1948 میں اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ نے اس دن کو 'یوم شہداء' قرار دیا تھا اور اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کیا تھا۔تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا بلکہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش 5 دسمبر کی تعطیل کو بھی فہرست سے نکال دیا جبکہ 27 اکتوبر کو سرکاری تعطیل رکھی گئی جس دن مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔Kashmir Martyrs Day

سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔ Kashmiri Killed in 13 july 1931

مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نے سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے تھے۔حکام نے عبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے، جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

مئورخین کا کہنا ہے کہ 13 جولائی کا واقعہ جموں و کشمیر کی تحریک کا اہم گوشہ ہے جس روز کشمیری عوام نے حکومتی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی، لیکن قوم پرست جماعت بی جے پی اس دن کو یوم شہداء تصور نہیں کرتی۔

بی جے پی کا ماننا ہے کہ مہاراجہ کا تعلق جموں سے تھا اور کشمیری عوام نے ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: 'ہمیں افسوس ہے کہ یوم شہداء بند کمروں میں منانا پڑ رہا ہے'

13جولائی کو جموں و کشمیر میں شہداء کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہداء پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شہداء کو گارڈ آف آنر پیش کرتا تھا۔ تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا۔ اور اب اس روز جموں و کشمیر میں سرکاری تقریب منعقد نہیں ہوتی۔

13 جولائی کے روز مزار شہداء پر سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا تاہم انتظامیہ اس روز مزار شہداء پر بندشیں عائد کرتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ان شہداء کو خراج عقیدت پیش نہیں کر پاتے ہیں۔مقامی سیاسی جماعتیں اس روز بند کمروں میں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتی ہے۔

نوٹ: یہ خبر یوم شہداء کی مناسب سے دوبارہ شائع کی جا رہی ہے۔

سرینگر: 13 جولائی سنہ 1931 کو سرینگر میں سینٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں 22 کشمیریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بعد میں سال 1948 میں اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ نے اس دن کو 'یوم شہداء' قرار دیا تھا اور اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کیا تھا۔تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا بلکہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش 5 دسمبر کی تعطیل کو بھی فہرست سے نکال دیا جبکہ 27 اکتوبر کو سرکاری تعطیل رکھی گئی جس دن مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔Kashmir Martyrs Day

سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔ Kashmiri Killed in 13 july 1931

مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نے سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے تھے۔حکام نے عبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے، جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

مئورخین کا کہنا ہے کہ 13 جولائی کا واقعہ جموں و کشمیر کی تحریک کا اہم گوشہ ہے جس روز کشمیری عوام نے حکومتی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی، لیکن قوم پرست جماعت بی جے پی اس دن کو یوم شہداء تصور نہیں کرتی۔

بی جے پی کا ماننا ہے کہ مہاراجہ کا تعلق جموں سے تھا اور کشمیری عوام نے ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: 'ہمیں افسوس ہے کہ یوم شہداء بند کمروں میں منانا پڑ رہا ہے'

13جولائی کو جموں و کشمیر میں شہداء کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہداء پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شہداء کو گارڈ آف آنر پیش کرتا تھا۔ تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا۔ اور اب اس روز جموں و کشمیر میں سرکاری تقریب منعقد نہیں ہوتی۔

13 جولائی کے روز مزار شہداء پر سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا تاہم انتظامیہ اس روز مزار شہداء پر بندشیں عائد کرتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ان شہداء کو خراج عقیدت پیش نہیں کر پاتے ہیں۔مقامی سیاسی جماعتیں اس روز بند کمروں میں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتی ہے۔

نوٹ: یہ خبر یوم شہداء کی مناسب سے دوبارہ شائع کی جا رہی ہے۔

Last Updated : Jul 13, 2023, 1:26 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.