کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے نافذ لاک ڈاؤن سے کشمیر میں تجارتی شعبہ متاثر ہوا ہے، وہیں شعبہ ٹرانسپورٹ مکمل طور پر ٹھپ پڑا ہے۔
اس شعبے سے منسلک بس ڈرائیور، کنڈکٹر اور مالکان کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔
چوں کہ گزشتہ برس پانچ اگست سے کشمیر میں آٹھ ماہ تک سرکار کی طرف سے بندشیں اور قدغنیں عائد رہیں جس سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
شعبہ ٹرانسپورٹ ان حالات کی چپیٹ میں آکر شدید نقصان سے دوچار ہوا، اور اب لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔
ڈرائیور اور کنڈکٹر اس صورتحال سے مکمل طور بے روزگار ہوگئے ہیں۔
وادی میں بس ٹرانسپورٹ سے 50 ہزار افراد کا روزگار منسلک ہے جس سے دو لاکھ چولہے بھی جلتے ہیں۔
گاڑیوں کے پہیے جام ہونے سے جہاں یہ لوگ کمائی سے محروم ہوگئے ہیں وہیں انہیں ہر ماہ گاڑیوں کا انشورنش، روڑ ٹیکس اور ٹوکن فیس ادا کرنا لازمی ہے جس سے یہ مزید مالی بحران اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
جموں و کشمیر لفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے حالیہ دنوں لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے افراد کیلئے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت محنت کشوں کو ہر ماہ ایک ہزار روپیے دیے جائیں گے۔ لیکن شعبہ ٹرانسپورت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ایک روپیہ بھی نہیں ملا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ سرکار ٹرانسپورٹ شعبے کی بحالی کیلئے ضروری اقدام کرے۔
لاک ڈائون میں کب نرمی دی جائے گی، کب گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں ہونگی اور کب یہ افراد دوسروں کی محتاجی سے نکل کر پھر سے خود روزگار کمانے لگیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گائے۔