مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ریاست اترپردیش سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جموں و کشمیر میں آتے ہی تعمیر و ترقی کا بگل بجا دیا تھا-ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہونے کی وجہ سے انہوں نے کشمیر کی سیاسی گلیاروں میں یہ تاثر دیا کہ ان کے لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز ہونے سے کشمیر میں پانچ اگست سے پڑے تعطل میں سیاسی سرگرمیاں بحال ہوں گی اور ایسا ہوا بھی-
منوج سنہا کے لیفٹیننٹ بننے کے بعد جموں و کشمیر میں پڑا سیاسی جمود اس وقت ٹوٹ گیا جب یہاں پہلی مرتبہ ضلع ترقیاتی کونسل انتخابات مجموعی طور پر امن طریقے پر منعقد ہوا۔منوج سنہا نے وادی میں تعمیر و ترقی پر زیادہ زور دیا اور متعدد پریس کانفرنس کے دوران تعمیر و ترقی کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ لیکن جموں و کشمیر میں پانچ اگست کے بعد مرکز کی سخت گیر پالیسیوں اور قانونی رد و بدل کی وجہ سے کشمیر کی معیشت کو شدید دھچکا لگا تھا-
پانچ اگست کے بعد انتظامیہ کی جانب سے 6 ماہ تک مسلسل جاری رہی بندشیں اور پھر کووڈ 19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں کی معشیت، تعلیم اور تعمیرات بری طرح متاثر ہوئیں-وہیں شعبہ سیاحت بھی سیاحوں کی غیر موجودگی کے سبب کافی خسارہ میں رہا-ان 6 ماہ کے دوران کشمیر میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین تصادم آرائیاں جاری رہی اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن جاری رہا-
اگرچہ منوج سنہا نے وادی کے لیے تجارت اور تعمیر و ترقی کے بحالی سے متعلق متعدد دعوے کیے ہیں لیکن بعض کاروباریوں کا کہنا ہے کہ' گذشتہ سات ماہ کے دوران وادی کی معشیت میں نمایا تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملی'۔ ان کا کہنا ہےکہ' ایل جی کے دعوے کے مطابق یہاں معشیت میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ مزید بے روزگاری میں اضافہ ہوا'۔
مزید پڑھیں: 'جموں وکشمیر ایک نئے دور میں داخل '
جبکہ اس تعلق سے سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ' کشمیر کی معشیت اور مثبت تبدیلیوں کا انحصار سیاسی و سیکورٹی کے حالات پر منحصر ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ' جب تک وادی میں مرکزی حکومت کی دباؤ کی پالیسی بند نہیں ہو گی تب تک کشمیر میں معشیت و تجارت بحال نہیں ہوگی'۔