کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے کہ ہلاک شدہ شہری کو گاڑی سے نکال کر گولی ماری گئی ہے، بے بنیاد اور حقائق سے پرے ہیں اور پولیس ان خبروں کو رد کرتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ غلط افواہیں اور رپورٹس پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
وجے کمار نے ان باتوں کا اظہار سرینگر میں دورانِ پریس کانفرنس کیا۔
انسپکٹر جنرل نے کہا کہ سوپور حملے میں لشکر طیبہ تنظیم سے وابستہ پاکستانی عسکریت پسند عثمان بھائی اور ناصر نامی مقامی عسکریت پسند شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ عسکریت پسندوں نے مسجد میں گھس کے اندھا دھند فائرنگ کی۔ سیکیورٹی فورسز نے مسجد کے اندر سے اسلحہ برآمد کر لیا ہے۔
وجے کمار نے کہا کہ اس حملے میں سرینگر کے ہلاک ہونے والے شہری بشیر احمد خان کے رشتہ داروں نے سیکورٹی فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں اس شہری کو گاڑی سے اتار کر گولیاں چلائی، لیکن میں یہ صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ رشتہ داروں نے یہ بیان عسکریت پسندوں کے دباو میں آکر دیا ہے اور یہ الزام جھوٹ پر مبنی ہے۔
انہوں کمار نے کہا چوں کہ ہلاک شدہ شہری کے لواحقین جائے موقع پر موجود نہیں تھے لہذا ان کا بیان غلط ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سیکورٹی اہلکاروں نے کیسے فائرنگ کے دواران شہری کی لاش پر بیٹھے اس کے پوتے کی تصویر کھینچی، آی جی پی کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی پولیس جانچ کرے گی جن اہلکاروں اور افسران نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر شائع کی ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
غور طلب ہے کہ بشیر احمد خان کے ساتھ ایک تین سالہ بچہ بھی تھا۔ پولیس نے کئی تصاویر کو ریلیئز کیا ہے جس میں معصوم بچہ لاش کی نزدیک دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اور تصویر میں ایک اہلکار اس بچے کو گود میں اٹھائے کہیں لے جارہا ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بچے کو حملے کے دوران بچالیا گیا۔جوائنائل جسٹس بورڈ کے قوانین کے مطابق تشدد یا جرائم کے معاملات میں کمسن بچوں کے نام یا تصاریر شائع خلاف قانون ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے سوپور حملے میں شہری کی ہلاکت پر ہوئے 'پروپگنڈہ' کی نکتہ چینی کی ہے۔
انہوں نے ٹویٹ میں لکھا: 'کشمیر کے خونیں تشدد میں ہر چیز پروپگینڈہ کا آلہ بن جاتا ہے۔ایک تین سالہ معصوم کی تکلیف کو پوری دنیا میں نشر کیا گیا تاکہ 'ہم اچھے اور وہ بُرے (سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کی جانب اشارہ) کا پیغام بھیجا جائے۔
عمر عبداللہ نے بتایا کہ ہم یہ پیغام معصوم کی تکلیف کا استعمال کئے بغیر بھی دے سکتے تھے۔انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا: 'ہم سکیورٹی فورسز سے اُمید رکھتے تھے کہ وہ معصوم کو بچائیں گے اور اُس کے لیے ہم اِن کے شکر گزار ہوتے، لیکن انہوں نے تین سالہ معصوم کی تکلیف کا استعمال کیا، جس کی ہم توقع نہیں کرتے'۔
قابل ذکر ہے کہ زینہ کوٹ ایچ ایم ٹی علاقے کے رہائشی بشیر احمد خان سوپور قصبے کے نواحی علاقے میں اس وقت ہلاک ہوئے جب مشتبہ عسکریت پسندوں نے سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی ایک پارٹی پر حملہ کیا جس کے بعد وہاں گولیوں کا تبادلہ ہوا۔
ہلاک شدہ بشیر احمد خان کے رشتہ دار نے بتایا کہ وہ (بشیر احمد) سویرے چھ بجے گھر سے سوپور میں چل رہے کام کا معائینہ کرنے کے لئے نکلے۔
انہوں نے کہا: 'وہ سویرے چھ بجے گھر سے نکلے ان کا سوپور میں کام چل رہا تھا جب انکوائنٹر ہوا تو سی آر پی ایف اہلکاروں نے واپس فائرنگ کی اور ان کو گاڑی سے باہر نکالا اور فائر کیا'۔
ہلاک شدہ بشیر احمد، جو پیشہ کے لحاظ سے ٹھیکیدار تھے، کی بیٹی اپنے والد کی ہلاکت پر بین کرتے ہوئے میڈیا کو بتاتی ہے: 'میرا بیٹا اس کے ساتھ تھا۔ انہوں نے اس تین سالہ بچے کے سامنے اس کو کیسے گولی ماری، مجھے کچھ نہیں چاہئے جس نے میرے والد کو گولی ماری کوئی اس کو بھی گولی مارے'۔