ایوان صحافت (کشمیر پریس کلب) نے یو اے پی اے (UAPA) کے تحت خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ کشمیر پریس کلب نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگرچہ کشمیر میں صحافت کبھی بھی آسان نہیں تھی، لیکن 05 اگست 2019 سے صحافیوں کے لئے چیلنجز اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت جبکہ کورونا وائرس کے چلتے نامساعد حالات کا سامنا ہے اس کے باوجود کشمیر میں صحافیوں کو پولیس اسٹیشنوں میں بلایا جاتا ہے اور اپنی کہانیوں (اسٹوریز) کے ذرائع بیان کرنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔
بیان کے مطابق اس سلسلے میں تازہ ترین واقعے میں جموں و کشمیر پولیس نے ایک نوجوان خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو 13 یو اے (پی) ایکٹ اور 505-IPC کے تحت ان پر مقدمہ مقدمہ درج کیا ہے۔ کے پی سی نے کہا کہ مسرت زہرا کو 18 اپریل 2020 کو سرینگر میں سائبر پولیس اسٹیشن، ایئر کارگو طلب کیا گیا تھا، تاہم کشمیر پریس کلب اور ناظم اطلاعات کی اعلیٰ سطحی مداخلت کے بعد پولیس نے سمن خارج کر دی لیکن اب یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیس نے اس کے خلاف سخت الزامات اور سخت کارروائیوں کا مقدمہ درج کیا ہے اور مسرت کے ساتھ گفتگو کے مطابق انھیں 21 اپریل ، 2020 منگل کو متعلقہ پولیس اسٹیشن آنے کے لئے کہا گیا ہے۔
مسرت ایک آزادانہ صحافی کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں، ان کی عکس کی گئی تصاویر واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ دی کوئنٹ، اور کاروان میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
کے پی سی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سے قبل اسی طرح ’’پولیس نے اتوار (19 اپریل) کو روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ کے ایک سینئر صحافی پیرزادہ عاشق کو طلب کیا اور اسی دن شائع ہونے والی ایک اسٹوری میں حقائق کی غلطیوں کی وضاحت کرنے کو کہا گیا۔ جب پیرزادہ عاشق نے سری نگر میں پولیس کو اپنا معاملہ سمجھایا تو اسے شام کے وقت تقریبا 40 کلو میٹر دور جنوبی کشمیر کا سفر کرنے اور ضلع اننت ناگ میں ایک پولیس افسر کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا، جس دوران عاشق کے اہل خانہ خوفزدہ اور اس کی حفاظت سے متعلق فکر مند تھے۔‘‘
اس سے قبل بانڈی پورہ میں بھی روزنامہ کشمیر آبزرور سے منسلک نامہ نگار مشتاق احمد کو پولیس نے حراست میں لے لیا جب وہ اپنے فرائض منصبی کے لئے لاک ڈاؤن کے دوران باہر آئے تھے، مشتاق کو عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد ہی رہا کیا گیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’اگرچہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک صحافی کی کہانی کو مسترد کرے اور کسی صحافی کو جواب دینے کی اجازت دے، لیکن صحافیوں کے خلاف ان کی اسٹوریز اور کام کے لئے الزامات عائد کرکے ان پر مقدمہ درج کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔‘‘
کشمیر پریس کلب نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتظامیہ اور صحافیوں کے مابین معاملات سے نمٹنے کے لئے ایک مکمل سرکاری محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ موجود ہے جس کے ذریعے ایسے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔
’’یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ جب پورا عالم وبائی مرض کی لپیٹ میں ہے اور جب ہمیں کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لئے یکجا ہونے کی ضرورت ہے تو پولیس نے صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرنا اور انہیں ہراساں کرنا شروع کیا ہے جو ناقابل قبول ہے۔‘‘
کے پی سی نے اس سلسلے میں وزیر داخلہ امیت شاہ، لیفٹینٹ گورنر جی سی مرمو اور پولیس کے ڈائرکٹر جنرل دلباغ سنگھ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے مسرت زہرہ پر عائد تمام الزامات مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔