کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے راج باغ - پولو ویو فُوٹ بِرج کو موٹر ایبل برج بنائے جانے کی اپیل کی ہے۔ 12 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے فوٹ برج کے سنگ بنیاد کے وقت اسے موٹر ایبل پل کے لیے مقرر کردہ اصول و ضوابط کے مطابق تعمیر شروع کی گئی تاہم بعد میں اسے فُوٹ برج کے طور پر عوام کے لیے وقف KCCI on Rajbagh - poloview foot bridgeکر دیا گیا۔
کے سی سی آئی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'تقریباً دو کلومیٹر کے دائرے میں تین فوٹ برج اور صرف ایک موٹر ایبل پل ہے۔ ان میں سے ایک کو اصل میں موٹر ایبل پل کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا اور اسے تکمیل کے آخری مراحل میں فوٹ برج میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ پُل کی کمی کے باعث دیگر سڑکوں اور پُل پر ٹریفک جام لگا رہتا ہے جس سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
کے سی سی آئی کے صدر شیخ عاشق نے بیان جاری کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے اس معاملے میں مداخلت کی گزارش کی ہے۔ انہوں نے بیان میں کہا ’اس حوالے سے کئی بار ضلع انتظامیہ سے میٹنگ کی گئی اور اُس وقت کے صوبائی کمشنر نے یقین دہانی بھی کی تھی، تاہم اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ شہر میں ٹریفک جام کی مشکل کو کم کرنے کے لیے راج باغ موٹر ایبل پل کی ضرورت ہے۔ ہم دریائے جہلم کے قریب ایک اور فٹ برج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ پل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے زاویے سے ایک ریسکیو پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کرے گا اور اسے کسی بھی صورت میں موٹر ایبل پل کے طور پر تعمیر کیا جانا چاہیے۔‘
جموں و کشمیر پروجیکٹس کنسٹرکشن کارپوریشن (جے کے پی سی سی) کے ایک افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’اس پل کو کسی بھی وقت ٹریفک کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد اور پیئرز موٹر ایبل پل کے مقررہ پیرامیٹرز کے مطابق رکھے گئے تھے۔ KCCI on Rajbagh - poloview foot bridgeاگر انتظامیہ ہمیں اجازت دیتی ہے تو ہمیں صرف اس کے اوپری حصے کو تبدیل کرنا ہوگا، اسے میگڈمائز کرکے ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے پولو ویو لنک روڈ سے جوڑ دیا جائے گا۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ سنہ 2018 میں انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز انڈیا (IEI) J&K chapter نے بھی پل کو موٹر ایبل پُل بنانے پر زور دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’اسے پیدل چلنے والے پل میں تبدیل کرنے کے حکومتی اقدام کے نتیجے میں اس کی تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہو گئی۔‘‘