سرینگر (جموں کشمیر) : الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے یونین ٹیریٹری لداخ کے ضلع کرگل میں کرگل پہاڑی ترقیاتی کونسل (Kargil Hill Development Counci) کے لئے بدھ کو پر امن انتخابات منعقد کئے گئے جس میں قریب 78 فی صد رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے۔ تاہم جموں کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اس ضمن میں مزکری سرکار سے سوال کیا کہ یہاں اسمبلی انتخابات کا انعقاد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔؟
کرگل کے ان انتخابات میں لوگ کونسل کے لئے چھبیس نمائندے منتخب کرتے ہیں جو اس ضلع کی عوام کے بنیادی اور روز مرہ کے مسائل خاص کر بجلی، پانی اور سڑک جیسے مسائل کا ازالہ کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ خطہ لداخ کو 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں کشمیر کی سابق ریاست سے علیحدہ کیا گیا۔ اس خطے سے چار ارکان جموں کشمیر کے قانون سازیہ میں منتخب ہوتے تھے جو اب نہیں ہوں گے۔ اس خطے میں مرکزی سرکار کی جانب سے تعینات کیے گئے لیفٹیننٹ گورنر انتظامی امور چلا رہے ہیں۔
جموں کشمیر میں سنہ 2014 میں آخری اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے تھے جس میں پی ڈی پی اور بی جے پی کے اکثریت نمائندے منتخب ہوئے تھے اور ان دونوں جماعتوں نے مخلوط سرکار قائم کی تھی جو محض چار برس کی مدت یعنی جولائی سنہ 2018 تک رہی۔ بی جے پی نے پی ڈی پی سے حمایت واپس لی جس کے بعد سے جموں کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔
جموں کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے گزشتہ چار برسوں سے یہاں اسمبلی انتخابات کا انعقاد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آئے روز یہاں کی سیاسی جماعتوں کے لیڈران انتخابات منعقد کرنے پر مرکزی سرکار سے گوہار لگا رہے ہیں لیکن مرکزی سرکار ان کے مطالبات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے صوبائی سیکریٹری شوکت احمد میر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’بی جے پی جموں کشمیر اور ملک کی دوسری ریاستوں کو دو زاویوں سے دیکھ رہی ہے۔‘‘
شوکت کا کہنا ہے کہ ’’جمہوریت میں بھی جموں کشمیر کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو عوامی اور منتخب نمائندوں سے محروم رکھا گیا ہے۔‘‘ جموں کشمیر اپنی پارٹی کے ترجمان منتظر محی الدین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’جموں کشمیر کے ایک خطے میں انتخابات منعقد کرنا اور دوسرے خطے کو اس سے محروم رکھنا، صاف ظاہر ہے کہ مرکزی سرکار آئین کا احترام نہیں کر رہی ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Omar Abdullah On LAHDC Elections پانچ اگست کے فیصلے کا جواب کرگل کے لوگ ووٹ کے ذریعے دیں گے، عمر عبداللہ
ان کا مزید کہنا ہے کہ منتخب نمائندوں کے بجائے یہاں کے لوگوں کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر رکھا گیا ہے جو جمہوریت کی ہی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہی سرکار کہہ رہی ہے کہ جموں کشمیر میں حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن اس کے برعکس کہا جا رہا ہے کہ حالات انتخابات کے لئے موزوں نہیں ہے جو خود انکے قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔‘‘
یاد رہے کہ جموں کشمیر میں نومبر اور دسمبر میں پنچایتی و بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے تھے لیکن اب یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے کہ مرکزی سرکار ان انتخابات کو موخر کر رہی ہے اور سنہ 2014 کے مئی میں پارلیمانی انتخابات کے بعد منعقد کئے جا سکتے ہیں۔