ETV Bharat / state

Pegasus: پیگاسس کے ذریعہ کشمیری صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی

ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 40 سے زیادہ بھارتی صحافیوں کے فونز کی جاسوسی کی گئی اور فارنسک ٹیسٹنگ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرتے ہوئے کسی نامعلوم ایجنسی نے درجنوں بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کی ہے۔

پیگاسس کے ذریعہ کشمیری صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی
پیگاسس کے ذریعہ کشمیری صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی
author img

By

Published : Jul 19, 2021, 2:03 PM IST

Updated : Jul 19, 2021, 7:34 PM IST

عالمی میڈیا کی انجمن کے ذریعہ تحقیقات سے ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل میں مقیم سافٹ ویئر کمپنی این ایس او (نیو، شالیو، اُمری) گروپ کے تیار کردہ ملٹری گریڈ مالویئر پیگاسس کے ذریعہ کشمیر کے صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی۔ ان میں نامور صحافی مزمل جلیل، افتخار گیلانی اور دہلی یونیورسٹی میں عربی کے استاد رہ چکے مرحوم ایس اے آر گیلانی بھی شامل ہیں۔

آن لائن نیوز پورٹل دی وائر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل سیکورٹی لیب کے اشتراک سے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایس اے آر گیلانی کے آئی فون کی فارنسک ٹیسٹنگ سے ظاہر ہوا ہے کہ ان کا فون پیگاسس نامی اسپائی ویئر سے تقریباً دو سال تک متاثر رہا ہے۔

ایس اے آر گیلانی دہلی یونیورسٹی میں عربی کے استاد تھے اور انہیں 2001 کے پارلیمنٹ حملہ معاملہ میں گرفتار بھی کیا گیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے انہیں باعزت رہا کردیا۔ تاہم 2019 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوگئی۔ ان کے گھر والوں نے ان کا فون محفوظ کرلیا تھا۔ ان کے فون کی جاسوسی بھی 2018 اور 2019 کے دوران کی گئی۔

دیگر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں جن پر حکومت کی جانب سے مبینہ جاسوسی کی گئی ہے، ان میں انڈین ایکسپریس کے سینیئر صحافی مزمل جلیل، شبیر حسین، افتخار گیلانی، اورنگزیب نقشبندی اور حسن بابر نہرو شامل ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے ان صحافیوں سے رابطہ کیا اور ان کا ردعمل حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ بیشتر صحافی اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، تاہم افتخار گیلانی اور اورنگزیب نقشبندی نے اسے چونکا دینے والا قرار دیا ہے۔

گیلانی نے کہا 'مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیوں کے لئے اتنا اہم تھا کہ وہ میرے فون کی ریکارڈنگ میں اپنا وقت، وسائل اور توانائی ضائع کردیں گے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'کوئی بھی اسٹوری جس کو عوام میں آنا چائیے ہم اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ لیکن یہ ڈراونا ہے کہ کوئی آپ کی نجی گفتگو کی جانکاری رکھتا ہے اور اس کو پبلک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تقریباً ہر شخص کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے اور بے گناہ شہریوں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کرنے والوں کو بہتر ضابطوں کا مطالبہ کرنا چاہئے۔'

نقشبندی نے کہا 'اگر یہ سچ ہے تو یہ ناقابل یقین اور حیران کن ہے۔ میں نے اپنے کیریئر کے دوران انتہائی پیشہ ورانہ اور ایماندارانہ انداز میں صحافت پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ تاہم، میری کوشش ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیشہ میرے کام میں رہی ہے اور ہمیشہ رہی گی۔ "

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 180 صحافیوں کو اسرائیل کی جانب سے تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس سے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں 40 بھارت میں موجود ہیں۔

واضح رہے این ایس او کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے تصدیق/تسلیم شدہ اداروں کو ہی پیگاسس اسپائی ویئر فروخت کرتی ہے۔ تاہم جاری کی گئی رپورٹ میں کسی حکومتی ایجنسی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

پیرس میں مقیم صحافت کی غیر منافع بخش تنظیم فوربیڈن اسٹوریز، انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور 16 نیوز آرگنائزیشن نے مشترکہ طور پر یہ تحقیقات کی ہے۔ انہوں نے 50 ہزار سے زائد صحافیوں کے موبائل فون کی فہرست میں سے 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد کی شناخت کی ہے، جن پر مبینہ طور پر این ایس او کے ذریعہ نگرانی رکھی جارہی تھی۔

اس انجمن کے ایک رکن واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان میں 189 صحافی، 600 سے زائد سیاستداں اور سرکاری اہلکار، کم از کم 65 بزنس ایگزیکیٹیو، 85 انسانی حقوق کے کارکنان اور متعدد اسٹیٹ ہیڈ شامل ہیں۔ جن صحافیوں پر نگرانی رکھی جارہی ہے وہ ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز، سی این این، وال اسٹریٹ جرنل، لی مونڈے اور فینانشیل ٹائمز سمیت اداروں کے لئے کام کرتے ہیں۔

ایمنسٹی نے یہ بھی جانکاری دی ہے کہ ان کے فارنسک محققین نے اس بات کی بھی تحقیق کی ہے کہ این ایس او گروپ کی پیگاسس اسپائی ویئر کو واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی (خشوگی) کی موت کے چار دن کے بعد ان کے منگیتر ہاتیس سینگز کے فون پر انسٹال کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ این ایس او پر پہلے بھی خاشقجی کی جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

این ایس او گروپ نے اے پی کے سوالات کا ای میل کے ذریعہ جواب دیتے ہوئے ان بات کی تردید کی ہے کہ اس نے کبھی بھی 'ماضی یا موجودہ ٹارگیٹ کی ایک فہرست' تیار کی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اسے اپنے صارفین کے ڈیٹا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

وہیں ایک الگ بیان میں این ایس او نے فوربیڈن اسٹوریز کی رپورٹ کو ' فرضی کہانیوں اور غیر مصدقہ اسٹوریز سے بھرا ہوا قرار دیا تھا'۔

عالمی میڈیا کی انجمن کے ذریعہ تحقیقات سے ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل میں مقیم سافٹ ویئر کمپنی این ایس او (نیو، شالیو، اُمری) گروپ کے تیار کردہ ملٹری گریڈ مالویئر پیگاسس کے ذریعہ کشمیر کے صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی۔ ان میں نامور صحافی مزمل جلیل، افتخار گیلانی اور دہلی یونیورسٹی میں عربی کے استاد رہ چکے مرحوم ایس اے آر گیلانی بھی شامل ہیں۔

آن لائن نیوز پورٹل دی وائر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل سیکورٹی لیب کے اشتراک سے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایس اے آر گیلانی کے آئی فون کی فارنسک ٹیسٹنگ سے ظاہر ہوا ہے کہ ان کا فون پیگاسس نامی اسپائی ویئر سے تقریباً دو سال تک متاثر رہا ہے۔

ایس اے آر گیلانی دہلی یونیورسٹی میں عربی کے استاد تھے اور انہیں 2001 کے پارلیمنٹ حملہ معاملہ میں گرفتار بھی کیا گیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے انہیں باعزت رہا کردیا۔ تاہم 2019 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوگئی۔ ان کے گھر والوں نے ان کا فون محفوظ کرلیا تھا۔ ان کے فون کی جاسوسی بھی 2018 اور 2019 کے دوران کی گئی۔

دیگر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں جن پر حکومت کی جانب سے مبینہ جاسوسی کی گئی ہے، ان میں انڈین ایکسپریس کے سینیئر صحافی مزمل جلیل، شبیر حسین، افتخار گیلانی، اورنگزیب نقشبندی اور حسن بابر نہرو شامل ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے ان صحافیوں سے رابطہ کیا اور ان کا ردعمل حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ بیشتر صحافی اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، تاہم افتخار گیلانی اور اورنگزیب نقشبندی نے اسے چونکا دینے والا قرار دیا ہے۔

گیلانی نے کہا 'مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیوں کے لئے اتنا اہم تھا کہ وہ میرے فون کی ریکارڈنگ میں اپنا وقت، وسائل اور توانائی ضائع کردیں گے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'کوئی بھی اسٹوری جس کو عوام میں آنا چائیے ہم اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ لیکن یہ ڈراونا ہے کہ کوئی آپ کی نجی گفتگو کی جانکاری رکھتا ہے اور اس کو پبلک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تقریباً ہر شخص کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے اور بے گناہ شہریوں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کرنے والوں کو بہتر ضابطوں کا مطالبہ کرنا چاہئے۔'

نقشبندی نے کہا 'اگر یہ سچ ہے تو یہ ناقابل یقین اور حیران کن ہے۔ میں نے اپنے کیریئر کے دوران انتہائی پیشہ ورانہ اور ایماندارانہ انداز میں صحافت پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ تاہم، میری کوشش ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیشہ میرے کام میں رہی ہے اور ہمیشہ رہی گی۔ "

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 180 صحافیوں کو اسرائیل کی جانب سے تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس سے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں 40 بھارت میں موجود ہیں۔

واضح رہے این ایس او کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے تصدیق/تسلیم شدہ اداروں کو ہی پیگاسس اسپائی ویئر فروخت کرتی ہے۔ تاہم جاری کی گئی رپورٹ میں کسی حکومتی ایجنسی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

پیرس میں مقیم صحافت کی غیر منافع بخش تنظیم فوربیڈن اسٹوریز، انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور 16 نیوز آرگنائزیشن نے مشترکہ طور پر یہ تحقیقات کی ہے۔ انہوں نے 50 ہزار سے زائد صحافیوں کے موبائل فون کی فہرست میں سے 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد کی شناخت کی ہے، جن پر مبینہ طور پر این ایس او کے ذریعہ نگرانی رکھی جارہی تھی۔

اس انجمن کے ایک رکن واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان میں 189 صحافی، 600 سے زائد سیاستداں اور سرکاری اہلکار، کم از کم 65 بزنس ایگزیکیٹیو، 85 انسانی حقوق کے کارکنان اور متعدد اسٹیٹ ہیڈ شامل ہیں۔ جن صحافیوں پر نگرانی رکھی جارہی ہے وہ ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز، سی این این، وال اسٹریٹ جرنل، لی مونڈے اور فینانشیل ٹائمز سمیت اداروں کے لئے کام کرتے ہیں۔

ایمنسٹی نے یہ بھی جانکاری دی ہے کہ ان کے فارنسک محققین نے اس بات کی بھی تحقیق کی ہے کہ این ایس او گروپ کی پیگاسس اسپائی ویئر کو واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی (خشوگی) کی موت کے چار دن کے بعد ان کے منگیتر ہاتیس سینگز کے فون پر انسٹال کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ این ایس او پر پہلے بھی خاشقجی کی جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

این ایس او گروپ نے اے پی کے سوالات کا ای میل کے ذریعہ جواب دیتے ہوئے ان بات کی تردید کی ہے کہ اس نے کبھی بھی 'ماضی یا موجودہ ٹارگیٹ کی ایک فہرست' تیار کی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اسے اپنے صارفین کے ڈیٹا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

وہیں ایک الگ بیان میں این ایس او نے فوربیڈن اسٹوریز کی رپورٹ کو ' فرضی کہانیوں اور غیر مصدقہ اسٹوریز سے بھرا ہوا قرار دیا تھا'۔

Last Updated : Jul 19, 2021, 7:34 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.