اپنی رہائی کے بعد ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پانچ اگست سے میں اپنے ہی گھر میں نظر بند تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے میرا اپنے ہی گھر میں دم گٹھنے لگا تھا'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'نظر بندی کے ابتدائی ایام خصوصا پہلا ڈیڑھ ماہ مشکلات سے پُر تھا بعد میں رعایت برتی گئی، رشتے داروں کو مجھ سے ملنے کی اجازت دی گئی'۔
نظربندی کے دوران دلاور میر سے برتی جانے والی سختی کا تذکرہ کرتے ہوئے میر نے کہا کہ پابندیاں اتنی سخت تھیں کی مجھے عید کی نماز ادا کرنے سے بھی روکا گیا۔ وادی کے موجودہ حالات اور آنے والے ایام کے تعلق سے اُن کا کہنا تھا کہ 'ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اپنے ساتھیوں سے اور عوام سے ملنے کے بعد ہی کچھ کہہ پاؤں گا'۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370اور 35اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی گورنر انتظامیہ نے جموں و کشمیر کے طول و ارض میں سخت ترین بندشیں نافذ کیں، وہیں مواصلاتی نظام کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند رہنمائوں اور مین اسٹریم سیاسی لیڈران کو بھی نظربند یا قید کیا گیا۔
سرینگر پارلیمانی حلقے کے امیدوار اور تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو بھی انکی رہائش گاہ میں قید کرکے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔