اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کے بعد ہی جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کے امکانات ہیں۔
مرکز کی جانب سے حد بندی کے اس فیصلے سے کشمیر میں سیاسی و عوامی حلقوں میں خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
عوامی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس موقعے پر جبکہ جموں وکشمیر میں سیاسی تعطل برقرار ہے اور صورتحال بھی غیر یقینی ہے، ایسے فیصلے لینے پر شک و شبہات لازمی ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا اس وقت ایسا فیصلہ لینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
وہیں کشمیر کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جلیل راتھر کا کہنا ہے کہ 'لوگوں کو لگتا ہے کہ حد بندی کمیشن جموں خطے میں اسمبلی حلقوں کی تعداد بڑھائے گی جس کی وجہ سے انہیں جموں و کشمیر میں اقتدار میں آسانی ہو گی۔
بتا دیں کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں منقسم کرنے کے بعد لداخ کی چار اسمبلی حلقوں کو کالعدم کیا تھا۔ مرکز نے جموں و کشمیر میں حد بندی کر کے اسمبلی نشستوں کو بڑھا کر 90 کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل تحلیل شدہ ریاست میں کُل 87 اسمبلی نشستیں تھیں۔