کشمیر وادی میں چند دنوں سے اگرچہ کچھ حد تک تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی ابھی تک ممکن نہیں ہوپائی ہے۔
گزشتہ ہفتے انتظامیہ کی جانب سے مرحلہ وار بنیادوں اور سخت احتیاطی تدابیر اپنانے کے ہدایت نامے کے ساتھ ہی دوکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے اس طرح کا ابھی تک کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا ۔جس کے باعث ٹرانسپورٹر حضرات مزید پریشانی اور تذبذب کے شکار ہورہے ہیں ۔
آٹو رکشا اور کہیں کہیں پر سومو گاڑیاں بھی شہر کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آرہی ہیں لیکن منی اور بڑی بسیں ابھی بھی ان اڈوں میں دھول چاٹ رہی ہیں، جس وجہ ٹرانسپورٹ سے منسلک افراد کی مالی حالت دن بدن بد سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔
اس شعبہ سے منسلک افراد اس قدر مالی تنگی سے جوجھ رہے ہیں کہ کئی ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات نے یا تو گاڑیوں پر چائے بیچنے یا پھل سزیاں فروخت کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ وہیں ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو مالی بدحالی سے تنگ آکر اپنی گاڑیوں کے پرزے تک بیچنے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔
وادی کشمیر کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ ہے۔ اس شعبہ سے نہ صرف لاکھوں گاڑی مالکان ، ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات جڑے ہوئے ہیں بلکہ ان کے کنبوں کی تعداد بھی کچھ اس سے کم نہیں ہے۔
ٹرانسپورٹر کہتے ہیں کہ وادی کشمیر کی یہ صنعت پہلے ہی حالات کی مارجھیل رہی ہے، لیکن اب انتظامیہ کی عدم دلچسپی ٹرانسپورٹر حضرات کی کمر توڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے۔
آل کشمیر ٹرانسپورٹ ویلفئیر ایسوسی ایشن کے عہدیدان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے چرمین نے تجارت پیشہ افراد کو کام کرنے کی اجازت تو دی ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کو چلنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے ۔
انہوں نے سوالیہ اندز میں پوچھا کہ اگر سٹییٹ روڈ ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں سے کووڈ 19 کے پھیلنے کا خطرہ نہیں ہے تو منی اور بڑی بسوں کو چلنے سے کس طرح کروناوائرس پھیل سکتا ہے۔
ٹرانسپورٹ صنعت سے جڑے افراد نے حکومت سے پرزور اپیل کی یے کہ انہیں باز آبادی پروگرام کے تحت مالی مدد فراہم کی جائے ۔ وہیں انہیں بھی دیگر شعبہ جات کی طرح کام کرنے کی اجازت فورا دی جائے۔