واضح رہے کی کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں قیوم کے معاملے پر عدالت عالیہ کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر کافی مبصرین نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فیصلے کو حقیقت سے پرے قرار دیا تھا۔
بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کہنا تھا کہ عدالت کی توہین کو مدنظر رکھتے ہوئے ان فیصلوں پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔
وہیں قانون کے ماہرین کا ماننا ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرنا عدالت کی توہین نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلے پہلے سے ہی منظرعام پر ہوتے ہیں، اس لیے ان پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں کوئی غلط بات نہیں بس خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کسی جج پر نکتہ چینی نہ کی جائے۔
جموں کشمیر عدالت عالیہ کے سینئر وکیل شبیر بٹ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'عدالت کی توہین اور فیصلوں پر نکتہ چینی میں ایک باریک لکیر جتنا فرق ہوتا ہے۔ عدالتوں سے وابستہ افراد جن میں وکیل جج اور دیگر افراد آتے ہیں وہ اس بات سے واقف ہیں۔ تاہم عوام کو یہ فرق سمجھنے میں تھوڑی مشکل ضرور پیش آتی ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'عدالتوں کے کسی بھی فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں، نکتہ چینی بھی کر سکتے ہیں۔ عدالتوں کے تمام فیصلے منظرعام پر ہوتے ہیں اس لیے کوئی غلط بات نہیں، بس خیال اس بات کا اتنا ہوتا ہے کہ کسی بھی جج صاحب پر ذاتی نکتہ چینی نہ کی جائے'۔
عدالت کی توہین پر تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 'منظرعام پر کئی بار عدالت کے فیصلوں کے حوالے سے لوگ اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم جج صاحب کبھی بھی خود سے عدالت کی توہین کا معاملہ درج نہیں کرتے۔ اگر لگتا ہے تو عدالت کارروائی کرتی ہے'۔
واضح رہے کہ کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں قیوم کے معاملے پر عدالت عالیہ کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر کافی مبصرین نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فیصلے کو حقیقت سے دور قرار دیا تھا۔
گزشتہ عدالت نے فیصلے کے پیراگراف زیر نمبر37 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر میاں قیوم متعلقہ اتھارٹی کے سامنے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کے خیالات اور نظریہ بدل چکا ہے تو متعلقہ اتھارٹی اس ضمن میں کوئی فیصلہ لے سکتی ہے۔