ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان سیف الدین سوز نے کہا کہ "سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک تاریخ کُن فیصلہ ہے۔ عدالت نے انتظامیہ کو آئین کا حوالہ دیتے ہوئے مثبت جواب دیا ہے۔ انتظامیہ نے غلط فیصلے لیے ہیں اور عدالت نے صاف طور پر اُن کو ہدایت دی ہے کی وہ وادی میں انٹرنیٹ خدمات بحال کریں'۔
وہیں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان محمد اکبر لون نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی ستائش کی ہے اور کہا کہ "عدالت نے یہ بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔
اکبر لون نے کہا کہ "انہیں یقین ہے کہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ عدالت کی ہدایت پر عمل کر کے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ بحال کرے گی تاکہ یہاں کی عوام کو راحت مل سکے۔
سابق وزیر الطاف بخاری نے کہا کہ 'میں عدالت عالیہ کے فیصلے کا استقبال کرتا ہوں۔ مجھے اس فیصلے سے زیادہ خوشی ہے۔ ہم نے چند روز قبل ہم نے یہ مسئلہ لیفٹینٹ گورنر کے سامنے رکھا تھا اور کل یہاں آئے سفارتکاروں کی وفد سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے اُن کی نوٹس میں لایا تھا کہ انٹرنیٹ خدمات پر عائد پابندیوں کی وجہ سے وادی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے'۔
پی ڈی پی نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہورہی ناانصافی پر سپریم کورٹ جاگ گئی اور حکومت کی سرزنش کی۔
پارٹی نے مزید کہا کہ پابندیوں کو اقتدار کا غلط استمعال بتا کر کورٹ نے ہمارے بھروسے کو دوبارہ زندہ کیا۔
کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کورٹ کو مبارکباد پیش کی۔
غلام نبی آزاد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے دلوں کی بات اور ترجمانی کی ہے اس کے لیے میں سپریم کورٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آج جموں وكشمير کی خصو صی آئینی حیثیت سے متعلق دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کئے جانے کے بعد وادی میں انٹرنیٹ پر عائد کی گئی پابندی پر فوری طور پر جائزہ لینے کے احکامات جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی اظہار رائے پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔ لوگوں کے حقوق نہیں چھینے جانے چاہیے۔ سات دنوں کے اندر دفعہ 144 پر جائزہ لیا جانا چاہیے۔ حکومت کی دلیلوں کو سپریم کورٹ نے خارج کیا۔ کہیں بھی 144 لگائی جائے تو اسے غیرمعینہ نہیں کیا جاسکتا۔ غیر معمولی حالات میں ہی اس کا نفاذ کیا جاسکتا ہے۔