ایک جانب وادی کشمیر میں 5 اگست سے تمام طرح کی سیاسی سرگرمیاں مکمل طور ماند پڑ گئی ہیں تو دوسری جانب سماجی اور دیگر سرگرمیاں بھی نا کے برابر دیکھنے کو ملی رہی ہیں جس وجہ سے اب آئے دن صحافیوں کو خبر کو تلاش کرنا مشکل بنتا جا رہا ہے۔
اگرچہ کشمیر میں خبروں کی روانی سننے اور دیکھنے کو مل رہی تھی تاہم آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ نامہ نگاروں کے لیے خبر تلاش کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
ادھر شہر خاص کے بغیر اب شہر و دیہات اور قصبہ جات میں دکانیں اور کاروباری ادارے آدھے دن کے لیے ہی کھلتے ہیں جبکہ پبلک ٹراسپورٹ کی آمد و رفت جاری ہے لیکن وادی بھر میں اضطرابی اور غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ اس کے چلتے بھی صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں کئی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وہیں وادی میں سیاسی خلا پیدا ہونے اور سرکاری ذرائع سے کسی خبر یا کسی موضوع کے تعلق سے مکمل معلومات یا تفصیل نہ ملنے کی وجہ سے بھی خبریں بنانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ جب کسی خبر کے تعلق سے متعلقہ افسران یا عہدیداران سے تصدیق کرنے کے حوالے سے یا جانکاری حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں تو سرکاری ذرائع متعلقہ خبر کے تعلق سے جانکاری نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کیمرے کے سامنے بات کرنے سے انکار کردیتے ہیں جس کے باعث خبر کو منظر عام پر لانے کے لیے صحافیوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہیں مختلف قومی اور مقامی اخبارات سے وابستہ صحافی بتاتے ہیں کہ محکمہ اطلاعات عامہ میں رکھی ناکافی انٹرنیت سہولیات سے پہلے ہی ذہنی کوفت کا شکار ہونا پڑتا ہے جبکہ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران یا کارکنان کی نظر بندی سے وادی کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں ممکن نہیں ہو پا رہی ہیں جس سے خبروں کا گڑھ کہلایا جانے والے کشمیر میں خبر سننے اور دیکھنے میں کافی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
محکمہ اطلاعات عامہ کی جانب سے قائم کردہ میڈیا سینٹر میں صحافی اب اپنے اپنے میڈیا اداروں کے لیے ہر روز خبر بنانے سے پہلے ایک دوسرے سے ہی پوچھتے اور مشورہ کرتے ہیں کہ آیا آج کس خبر پر کام کیا جا سکتا ہے۔
صحافیوں کو وادی کشمیر کی غیر یقینی صورتحال اور انٹرنیٹ کی عدم موجودگی کے سبب خبروں کی تلاش میں کب تک اس طرح کے چیلنجوں سے جوجھنا پڑے گا یہ مستقبل میں دیکھنے والی بات ہوگی۔