احتجاج میں سرینگر رُکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اننت ناگ کے رُکن پارلیمان حسنین مسعودی شامل تھے۔ دونوں اراکین ہاتھوں میں بینر لیے ہوئے تھے جس پر لکھا تھا 'لاوئے پورہ ہوکرسر تصادم کی آزادانہ جانچ کروائی جائے اور ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی لاشیں ان کے اہلخانہ کے سُپرد کی جائیں۔'
قبل ازیں حسنین مسعودی نے لوک سبھا میں اس 'مبینہ فرضی تصادم' کا تذکرہ کیا۔ حسنین مسعودی نے کہا کہ سرینگر کے نواحی علاقہ ہوکرسر میں ہوئے مبینہ فرضی تصادم کی آزادانہ طور پر جانچ کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں انکاؤنٹر ہوا اور پہلے بتایا گیا کہ تصادم میں 3 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، تاہم تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ وہ تصادم فرضی تھا۔
حسنین مسعودی نے کہا کہ فوج اور پولیس کی جانب سے کی گئی انکوائری کے بعد لوگوں میں ایک اعتماد پیدا ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس دسمبر میں سرینگر کے لاوئے پورہ ہوکرسر علاقے میں 'تین نوجوان' مارے گئے، تاہم اس میں شبہ ہے۔ پولیس اور سی آر پی ایف نے الگ الگ بیانات دیے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی تحقیقات کی جائے'۔