ETV Bharat / state

Closure of J&K Women's Commission: سٹیٹ وومنز کمیشن بند، خواتین کے مسائل کی سنوائی کون کرے؟

دفعہ 370 کی منسوخی Abrogation of Article 370 کو دو برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، خصوصی درجے کی منسوخی کے ساتھ ہی سابق ریاست جموں و کشمیر میں قائم سٹیٹ وومنز کمیشن J&K State Women's Commission کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

جموں و کشمیر میں سٹیٹ وومنز کمیشن بند کیے جانے پر سیاسی رہنمائوں/تجزیہ نگاروں کا رد عمل
جموں و کشمیر میں سٹیٹ وومنز کمیشن بند کیے جانے پر سیاسی رہنمائوں/تجزیہ نگاروں کا رد عمل
author img

By

Published : Jan 11, 2022, 3:22 PM IST

Updated : Jan 11, 2022, 5:28 PM IST

سٹیٹ وومنز کمیشن State Women's Commission جموں و کشمیر کی خواتین کے مسائل، جن میں گھریلو تشدد سمیت دیگر معاملات شامل ہیں، کے حل کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی آخری چیئرپرسن سپریم کورٹ کی وکیل وسندھرا پھاٹک مسعودی تھیں۔

کمیشن کے خاتمے کے وقت اس میں تقریباً پانچ سو مقدمے زیر سماعت تھے، ان مقدمات کا آج کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

جموں و کشمیر میں سٹیٹ وومنز کمیشن بند کیے جانے پر سیاسی رہنمائوں/تجزیہ نگاروں کا رد عمل

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سرکار نے کہا تھا کہ سٹیٹ وومنز کمیشن State Women's Commission کے بجائے اب جموں و کشمیر میں نیشنل کمیشن فار وومن National Commission for Women کا ایک دفتر قائم کیا جائے گا جہاں قدیم مقدمات کے علاوہ خواتین نئے کیسز بھی درج کروا سکتی ہیں۔ تاہم جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کے خاتمے کو دو برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور آج تک سرکار نے نیشنل کمیشن کا دفتر یہاں قائم نہیں کیا ہے۔

سٹیٹ کمیشن فار وومن State Women's Commissionکا دفتر سرینگر کے لالچوک علاقے میں قدیم اسمبلی کی عمارت میں قائم تھا جہاں آج آثار قدیمہ کا دفتر ہے۔

کمیشن کی سابق چیئرپرسن نعیمہ مہجور نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہوں نے کمیشن میں ڈھائے برس کے عرصے کے دوران سات ہزار کیسز درج کروائے تھے Nayeema Mahjoor on Closure of Women’s Commission officeاور بیشتر کیسز کو حل بھی کیا گیا تھا۔

انکا کہنا ہے کہ کمیشن میں ہر روز دس شکایتیں درج ہوتی تھیں اور خواتین کے لئے یہ کمیشن Women's commission office closed after Abrogation of 370امید کا مرکز بن چکا تھا۔

نعیمہ مہجور نے مزید کہا کہ ’’چونکہ کشمیر ایک پُر تناؤ جگہ ہے جہاں خواتین کو گھریلو تشدد کے علاوہ پر تشدد حالات کی وجہ کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تاہم کشمیر جیسی جگہ پر کمیشن کا نہ ہونا خواتین کے لئے باعث تشویش ہے۔‘‘

مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے مرکزی سرکار نے سرکار کے فعال اداروں کو بند کردیا جن میں وومنز کمیشن بھی شامل ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ترجمان نجم الثاقب PDP on Closure of Women’s Commission officeنے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’مرکزی سرکار نے کمیشن کو بند کرکے خواتین کی مصیبتوں میں اضافہ کیا ہے۔‘‘

نیشنل کانفرس کی ترجمان افرا جان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا ’’بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ 370 اور 35 اے جموں و کشمیر میں خواتین کے حقوق کو سلب کر رہا ہے لیکن اب دیکھیں کہ کمیشن کو بند کرنے سے خواتین کے حقوق کیسے پامال ہو رہے ہیں اور انکے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے واحد ایک ادارہ تھا جو بند کر دیا گیا۔‘‘

افرا جان کا کہنا ہے کہ National Conference on Closure of Women’s Commission officeپانچ اگست2019 کے بعد یہاں کی خواتین کے مسائل کی سنوائی کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جو خود مرکزی سرکار پر ایک سوالیہ ہے کہ انہوں نے کس طرح یہاں کی خواتین کے حقوق پامال کیے۔

سٹیٹ وومنز کمیشن State Women's Commission جموں و کشمیر کی خواتین کے مسائل، جن میں گھریلو تشدد سمیت دیگر معاملات شامل ہیں، کے حل کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی آخری چیئرپرسن سپریم کورٹ کی وکیل وسندھرا پھاٹک مسعودی تھیں۔

کمیشن کے خاتمے کے وقت اس میں تقریباً پانچ سو مقدمے زیر سماعت تھے، ان مقدمات کا آج کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

جموں و کشمیر میں سٹیٹ وومنز کمیشن بند کیے جانے پر سیاسی رہنمائوں/تجزیہ نگاروں کا رد عمل

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سرکار نے کہا تھا کہ سٹیٹ وومنز کمیشن State Women's Commission کے بجائے اب جموں و کشمیر میں نیشنل کمیشن فار وومن National Commission for Women کا ایک دفتر قائم کیا جائے گا جہاں قدیم مقدمات کے علاوہ خواتین نئے کیسز بھی درج کروا سکتی ہیں۔ تاہم جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کے خاتمے کو دو برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور آج تک سرکار نے نیشنل کمیشن کا دفتر یہاں قائم نہیں کیا ہے۔

سٹیٹ کمیشن فار وومن State Women's Commissionکا دفتر سرینگر کے لالچوک علاقے میں قدیم اسمبلی کی عمارت میں قائم تھا جہاں آج آثار قدیمہ کا دفتر ہے۔

کمیشن کی سابق چیئرپرسن نعیمہ مہجور نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہوں نے کمیشن میں ڈھائے برس کے عرصے کے دوران سات ہزار کیسز درج کروائے تھے Nayeema Mahjoor on Closure of Women’s Commission officeاور بیشتر کیسز کو حل بھی کیا گیا تھا۔

انکا کہنا ہے کہ کمیشن میں ہر روز دس شکایتیں درج ہوتی تھیں اور خواتین کے لئے یہ کمیشن Women's commission office closed after Abrogation of 370امید کا مرکز بن چکا تھا۔

نعیمہ مہجور نے مزید کہا کہ ’’چونکہ کشمیر ایک پُر تناؤ جگہ ہے جہاں خواتین کو گھریلو تشدد کے علاوہ پر تشدد حالات کی وجہ کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تاہم کشمیر جیسی جگہ پر کمیشن کا نہ ہونا خواتین کے لئے باعث تشویش ہے۔‘‘

مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے مرکزی سرکار نے سرکار کے فعال اداروں کو بند کردیا جن میں وومنز کمیشن بھی شامل ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ترجمان نجم الثاقب PDP on Closure of Women’s Commission officeنے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’مرکزی سرکار نے کمیشن کو بند کرکے خواتین کی مصیبتوں میں اضافہ کیا ہے۔‘‘

نیشنل کانفرس کی ترجمان افرا جان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا ’’بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ 370 اور 35 اے جموں و کشمیر میں خواتین کے حقوق کو سلب کر رہا ہے لیکن اب دیکھیں کہ کمیشن کو بند کرنے سے خواتین کے حقوق کیسے پامال ہو رہے ہیں اور انکے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے واحد ایک ادارہ تھا جو بند کر دیا گیا۔‘‘

افرا جان کا کہنا ہے کہ National Conference on Closure of Women’s Commission officeپانچ اگست2019 کے بعد یہاں کی خواتین کے مسائل کی سنوائی کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جو خود مرکزی سرکار پر ایک سوالیہ ہے کہ انہوں نے کس طرح یہاں کی خواتین کے حقوق پامال کیے۔

Last Updated : Jan 11, 2022, 5:28 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.