سرینگر: جموں کشمیر میں گزشتہ ہفتے ’’بیک ٹو ولیج‘‘ (Back to Village) یعنی ’’چلو گاؤں کی اور‘‘ پروگرام کا چوتھا مرحلہ شروع ہوا اور ایل جی انتظامیہ کے افسران آج کل اسی سرگرمی میں مصروف ہیں۔ بیک ٹو ولیج کا آغاز سنہ جولائی 2019میں سابق گورنر ستیہ پال ملک کے اقتدار میں اُس وقت ہوا تھا، جب جموں کشمیر ایک ریاست تھی۔ گزشتہ ہفتے اس مہم کا چوتھا مرحلہ یونین ٹیریٹری میں شروع ہوا۔ Back to Village IV in Jammu and Kashmir
اس پروگرام کے تحت سرکاری افسران گاؤں دیہات کا دورہ کرتے ہیں جہاں وہ عوام کو درپیش مسائل کے بار میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ لوگ اس مقصد سے اس مہم میں شرکت کرتے ہیں تاکہ انکے مسائل کا ازالہ ہو سکے۔ اس مہم پر کافی روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جن میں افسران کی رہائش، کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ شامل ہے۔ Reaction on back to Village
انتظامیہ اور بی جے پی سے منسلک کارکنان اس مہم کی کافی تعریفیں کرتے ہیں کہ ’’اس سے انتظامیہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ کر ان کے مسائل کی آگاہی حاصل کرکے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے جاتے ہین۔‘‘ Is Back to Village only a PR Exercise
گزشتہ تین برسوں سے عوام نے ہزاروں مسائل اس مہم میں درج کروائے تاہم لوگوں کے مطابق ’’انتظامیہ محض اعلانات تک ہی محدود ہے اور بیک ٹو ولیج کے نام پر محض کاغذی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔‘‘ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بڑی مہم کے باوجود بھی ان کے علاقوں میں دیرینہ مسائل کا ازالہ نہیں ہوا جس سے یہ مہم بھی بے سود ثابت ہو رہی ہے۔
اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے گزشتہ روز جموں کشمیر کے چیف سیکریٹری ارون کمار مہتا نے ہدایت جاری کی کہ افسران متعلقہ پنچایت میں ایک سال کے لئے بحثیت مینٹر (Mentor) رہیں گے تاکہ بیک ٹو ولیج میں عوام سے کئے جانے والے وعدے وفا ہو سکے۔‘‘
مزید پڑھیں: Back to Village Program In Tral امیر آباد اور سیر ترال میں بیک ٹو ولیج پروگرام
کیا چیف سیکریٹری کی یہ ہدایت نتیجہ خیز ثابت ہوگی؟ اور بیک ٹو ولیج کتنا سود مند ثابت ہوگا اس کا نتیجہ اگلے مرحلے میں معلوم ہو پائے گا۔