ان باتوں کا اظہار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں پر کام کرنے والی ایک تنظیم کے کارکن خُرم پرویز نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ 3سو سے زیادہ افراد ملک کی مختلف ریاستوں کے قید خانوں میں بند ہیں جن میں ہریانہ، پنجاب اور آگرہ وغیرہ شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں خرم پرویز نے کہا کہ اکثر افراد کی جو گرفتار عمل میں لائی گئی ان کی عمر 18سے 40سال کے درمیان ہے اور 4سے زیادہ کم عمر افراد وہ بھی ہیں جن پر پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کا اطلاق کیا گیا ہے جن کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے۔
خرم پرویز نے مزید کہا کہ اُن افراد کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جنہیں احتیاط کے طور پر مختلف پولیس تھانوں میں دو یا تین دن بند رکھ کر معاہدے (Bond) پر چھوڑ دیا گیا جس کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران خرم پرویز نے مزید کہا کہ جمہوری نظام میں عوام کو اپنی بات کہنا کا حق ہوتا ہے اور اگر ان کے توقعات یا خواہشات کے خلاف کوئی فیصلہ لیا جاتا ہے تو اس پر عوام آواز بلند کرنے کا حق بھی رکھتی ہے لیکن جس طرح سے لوگوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے وہ قانون کے منافی ہے اور اب جو لوگوں کو ایک تحریری Bond پر رہا کیا جاتا ہے وہ بھی قانون کے خلاف ہی ہے
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انسانی حقوق کارکن نے کہا کہ یہاں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور ہم جو اس حوالے سے تفصیلات جمع کرتے آئے ہیں گزشتہ اڑھائی مہینے کے زائد عرصے سے انٹرنیٹ کی عدم موجودگی سے ہماری تنظیم براہ راست دیگر ملکی و بین الاقوامی سطح کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو وہ تفصیلات پہنچانے سے قاصر ہیں۔
تاہم جو بھی اس عرصے میں انسانی حقوق کارکنان کشمیر آئے خرم پریز کے مطابق انہوں نے ان افراد کی بھرپور مدد کی۔
خرم پرویز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ مزید موضوعات پر بھی تفصیلی گفتگو کو، دیکھئے اس حوالے سے انکی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو