وادی کشمیر کے کئی صنعتکاروں نے یا تو اپنے قائم کردہ صنعتی یونٹ بند کیے ہیں یا اگر چند ایک کارخانہ داروں نے اپنا کام پھر سے شروع بھی کیا ہے لیکن اشیاء کی صنعت کا عمل ٹھپ پڑا ہے۔
عارفہ جان کے اس کارخانے میں کئی کاریگر کام کیا کرتے تھے جس سے یہاں کام کے اعتبار سے کافی گہماگہمی دیکھنے کو ملتی تھی۔ تاہم آج یہاں نہ تو وہ کاریگر ہی دکھائی پڑ رہے ہیں اور نہ ہی وہ کام ہی۔
عارفہ جان اگرچہ اب اپنے کام کو پھر سے بحال کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن مایوسی کا یہی عالم اکثر و بیشر صنعتی مراکز میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پلوامہ ضلع کے کھنموہ انڈسڑیل اسٹیٹ میں پانچ سو سے زائد صنعتی یونٹ خاموش ہو گئے ہیں، جبکہ صنعت کار بے بسی کا شکار ہیں۔
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد مرکزی حکومت دعوی کر رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ مارچ میں اسی پس منظر میں پہلی بار سرمایہ کاری کے بین الاقوامی میلے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔
ادھر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے ہیں اور معیشت کو مجموعی طور پر 18 ہزار کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔
اب اس صورتحال میں یہاں کے تاجر اور صنعت کار بین الاقوامی سرمایہ کاری کے جامع منصوبے پر کس طرح کی امیدیں رکھ سکتے ہیں؟
واضح رہے یہ عالمی صنعتی میلہ عائندہ ماہ سرینگر اور جموں میں دو مرحلوں میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔