آوارہ کتوں کے کاٹنے سے وادی میں ہر سال ماہرین کے مطابق 5000 لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔
سرینگر اور دیگر قصبہ جات میں شہریوں کی جانب سے فضلہ ڈالنے اور انتظامیہ کی طرف سے اس فضلہ کو جمع کرنے اور اس کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات سے کتوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ عام لوگوں کی شکایتیں اور دباؤ کی وجہ سے انتظامیہ نے چند برس قبل آوارہ کتوں کی سٹریلیزیشن یا نس بندی شروع کی تھی۔ تاہم سست رفتاری کے باعث یہ جدید طریقہ بے سود ثابت ہو رہا ہے۔
سرینگر میونسپل کارپوریشن کشمیر میں واحد ادارہ ہے جس نے آوارہ کتوں کی نس بندی کا سلسلہ شروع کیا ہے جبکہ وادی کے نو اضلاع میں انتظامیہ کے پاس اس طرح کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
ایس ایم سی اگرچہ نس بندی کر رہی ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے جس سے کتوں کی آبادی کو قابو میں کرنا ناممکن لگ رہا ہے۔سرینگر میونسپل کارپوریشن کے کمشنر غضنفر علی نے بتایا کہ ہر ماہ میں 6 سے 15 کتوں کی نس بندی کی جارہی ہے۔ تاہم سرما میں موسم کی وجہ سے یہ سلسلہ روکا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے پاس نس بندی ہی واحد طریقہ ہے کیونکہ دیگر تدابیر پر عدالت یا سرکار کی طرف سے پابندی ہے۔ کمشنر کا کہنا ہے کہ شہریوں کو سڑکوں پر فضلہ اور دیگر کوڑا ڈالنے سے انحراف کرنا چاہیے۔
تاہم لوگوں کا ماننا ہے کہ نس بندی کرنے کے ساتھ ساتھ میونسپل اداروں کو فضلہ ٹھکانے لگانے کے جدید طریقوں کا بھی استعمال کرنا لامحال ہے کیونکہ کھانا دستیاب ہونے سے بھی کتوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔