دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد حیدرپورہ انکاؤنٹر ایسا پہلا واقعہ پیش آیا ہے جس کے خلاف جموں و کشمیر کے تمام حلقوں کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کی گئی اور لوگوں نے حکومت سے انصاف کی اپیل کی ہے۔ سیاسی رہنماؤں سمیت، وکلا اور عام لوگوں نے پورے کشمیر میں احتجاج کیا۔ انکاؤنٹر میں مبینہ طور پر عام شہری مدثر گل اور الطاف بٹ کی لاش ان کے لواحقین کے حوالے کرنے کی مانگ کی۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ٹویٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'بے قصور عام شہریوں کو تصادم آرائی کے دوران ڈھال بنانا اور پھر اُن کو گولیوں کے تبادلے میں ہلاک کرکے عسکری معاون قرار دینا اب بھارت سرکار کی رول بُک کا حصہ بن گیا ہے۔'
حتی کہ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک فرضی انکاؤنٹر تھا جس میں عام شہریوں کو مارا گیا۔
انکاؤنٹر میں مارے گئے لوگوں کے لواحقین نے گذشتہ صبح سرینگر کی پریس کالونی میں پولیس اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کی۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ 'الطاف ایک معصوم شہری تھا جو حیدرپورہ میں تجارت کر رہا تھا جبکہ مدثر پیشے سے ایک ڈٓاکر تھے اور اپنے پیشے میں مصروف تھے۔ ان لوگوں کو مبینہ تصادم کے دوران سیکورٹی فورسز نے ہلاک کیا۔'''
مبینہ تصادم میں ہلاک ہونے والے عام شہری الطاف احمد بٹ اور مدثر گل کے لواحقین اس مبینہ تصادم کی شفاف جانچ اور لاشوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ احتجاج کے دوران پولیس نے دیر رات انہیں حراست میں لے لیا۔
جمعرات کو جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اس حوالے سے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "یہ 2021 کا نیا کشمیر ہے۔ اس طرح سے جموں و کشمیر پولیس نے PMO آفس کے وعدے 'دل کی دوری اور دہلی سے دوری' کو پورا کیا۔ یہ اشتعال انگیز ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے اہل خانہ کو احتجاج میں پرامن دھرنا نہیں دینے دیا'۔
وہیں، پی ڈی پی کے متعدد لیڈر جو ریزیڈنسی روڑ پر واقع پارٹی ہیڈکوارٹر کی جانب جانے کی کوشش کر رہے، بھاری تعداد میں تعینات پولیس نفری نے انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقعے پولیس، حکومت و انتظامیہ کے خلاف پر نعرے بازی بھی کی گئی۔