ETV Bharat / state

مغل باغات: کشمیر کے ماتھے کا جھومر

نشاط باغ جھیل ڈل کے مشرق میں زبرون پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہ باغ چنار اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس باغ کی خوبصورتی اور قدیم طرز تعمیر کے لحاظ سے مغل باغات میں سے نشاط سیاحوں کی پہلی پسند رہتا ہے ۔

کشمیر کے ماتھے کی جھومر
کشمیر کے ماتھے کی جھومر
author img

By

Published : Oct 17, 2020, 10:38 PM IST

Updated : Oct 18, 2020, 8:46 AM IST

کشمیر وادی جہاں فلک بوس پہاڑوں، بہتے ہوئے چشموں اور جھیلوں کی وجہ سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتی ہے وہیں یہ مغل باغات سے بھی کافی مشہور ہے۔

کشمیر کے مغل باغات

کشمیر میں مغل دور حکومت میں تعمیر کیے گئے باغات موجود ہیں تاہم جھیل ڈل کے کنارے پر واقع نشاط اور شالیمار باغ اپنی خوبصورتی اور طرز تعمیر کے اعتبار سے سب سے جداگانہ ہیں ۔

نشاط باغ جھیل ڈل کے مشرق میں زبرون پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہ باغ چنار اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس باغ کی خوبصورتی اور قدیم طرز تعمیر کے لحاظ سے مغل باغات میں سے نشاط سیاحوں کی پہلی پسند رہتا ہے ۔

خواں کو ملکی ہو یا غیر ملکی سیاح۔موسم بہار ہو یا یہ خزاں۔ ہر موسم میں آنے والے سیاح باغ کے اندر رنگ برنگے پھولوں، بہتے پانے کے جھرنے اور فواروں کا مزا لینے کے لئےآتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: موسم خزاں میں سیاحوں کے آنے کی امید جگی

نشاط باغ کو ملکہ نور جہاں کے بڑے بھائی شہزادہ آصف خان نے 1633عیسوی میں بڑی محبت سے بنوایا ہے۔ اس دور میں نشاط باغ دو بڑے حصوں پر مشتمل تھا۔

باغ کے ایک حصے میں عوام لوگ آجاسکتے تھے جبکہ دوسرا حصہ حرم کہلاتا تھا جو کہ شاہی خواتین کے لئے مخصوص ہوا کرتا تھا۔ باغ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد شاہ جہاں خود اس باغ کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے ۔

اس کی عظمت و شان پر نظر پڑتے ہی بادشاہ کا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ شالیمار باغ بھی مغل طرز تعمیر کا ایک نادر نمانہ ہے۔ یہ باغ ڈل جھیل کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ ۔جب اس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس باغ کو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لئے 1619 میں تعمیر کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر کا قدیم ترین ریشم کارخانہ

موسم گرما میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں یہی قیام کیاکرتے تھے۔اس دور میں اسے گرمائی صدر مقام بھی کہا جاتا تھا۔شالیمار باغ کی ہر دور میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ نام بھی بدلتا رہا لیکن شالمیار کے نام سے ہی باغ کو اس وقت جانا اور پہچانا جاتا ہے۔

شالیمار باغ چناروں کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ پر کشس مناظر کا لطف اٹھانے کے لیے سیاح جب بھی کشمیر وارد ہوتے ہیں تو شالیمار باغ کا نظارے کئے بغیر نہیں جاتے۔ خزاں کے موسم میں یہ باغ سنہرے رنگ میں ڈوب جاتا ہے۔ کیونکہ چناروں کے گرتے سنہرے پتے قابل دید منظر پیش کرتے ہیں ۔ جس وجہ سے موسم خزاں کے شیدائی اور چنارو کے شوقین اس باغ کی سیر ضرور کرتے ہیں ۔

نشاط اور شالمیار کے متصل چشم شاہی اور پری محل بھی مغلیہ دور کے طرز تعمیر کی اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اب ان مغل باغات کو ثقافتی ورثہ کے طور تحفظ فراہم کرنے کے لیے یونیسکو کے عالمی ثقافتی نقشے میں شامل کیا جارہا ہے ۔

اس ضمن میں جن مغل باغات کو یونیسکو میں ورثے کے طور شامل کرنے کی فہرست میں رکھا گیا یے ان میں ویری ناگ،اچھہ بل،پری محل ،چشمہ شاہی،شالیمار اور نشاط باغ کے نام قابل ذکر ہیں۔

کشمیر وادی جہاں فلک بوس پہاڑوں، بہتے ہوئے چشموں اور جھیلوں کی وجہ سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتی ہے وہیں یہ مغل باغات سے بھی کافی مشہور ہے۔

کشمیر کے مغل باغات

کشمیر میں مغل دور حکومت میں تعمیر کیے گئے باغات موجود ہیں تاہم جھیل ڈل کے کنارے پر واقع نشاط اور شالیمار باغ اپنی خوبصورتی اور طرز تعمیر کے اعتبار سے سب سے جداگانہ ہیں ۔

نشاط باغ جھیل ڈل کے مشرق میں زبرون پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہ باغ چنار اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس باغ کی خوبصورتی اور قدیم طرز تعمیر کے لحاظ سے مغل باغات میں سے نشاط سیاحوں کی پہلی پسند رہتا ہے ۔

خواں کو ملکی ہو یا غیر ملکی سیاح۔موسم بہار ہو یا یہ خزاں۔ ہر موسم میں آنے والے سیاح باغ کے اندر رنگ برنگے پھولوں، بہتے پانے کے جھرنے اور فواروں کا مزا لینے کے لئےآتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: موسم خزاں میں سیاحوں کے آنے کی امید جگی

نشاط باغ کو ملکہ نور جہاں کے بڑے بھائی شہزادہ آصف خان نے 1633عیسوی میں بڑی محبت سے بنوایا ہے۔ اس دور میں نشاط باغ دو بڑے حصوں پر مشتمل تھا۔

باغ کے ایک حصے میں عوام لوگ آجاسکتے تھے جبکہ دوسرا حصہ حرم کہلاتا تھا جو کہ شاہی خواتین کے لئے مخصوص ہوا کرتا تھا۔ باغ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد شاہ جہاں خود اس باغ کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے ۔

اس کی عظمت و شان پر نظر پڑتے ہی بادشاہ کا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ شالیمار باغ بھی مغل طرز تعمیر کا ایک نادر نمانہ ہے۔ یہ باغ ڈل جھیل کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ ۔جب اس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس باغ کو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لئے 1619 میں تعمیر کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر کا قدیم ترین ریشم کارخانہ

موسم گرما میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں یہی قیام کیاکرتے تھے۔اس دور میں اسے گرمائی صدر مقام بھی کہا جاتا تھا۔شالیمار باغ کی ہر دور میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ نام بھی بدلتا رہا لیکن شالمیار کے نام سے ہی باغ کو اس وقت جانا اور پہچانا جاتا ہے۔

شالیمار باغ چناروں کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ پر کشس مناظر کا لطف اٹھانے کے لیے سیاح جب بھی کشمیر وارد ہوتے ہیں تو شالیمار باغ کا نظارے کئے بغیر نہیں جاتے۔ خزاں کے موسم میں یہ باغ سنہرے رنگ میں ڈوب جاتا ہے۔ کیونکہ چناروں کے گرتے سنہرے پتے قابل دید منظر پیش کرتے ہیں ۔ جس وجہ سے موسم خزاں کے شیدائی اور چنارو کے شوقین اس باغ کی سیر ضرور کرتے ہیں ۔

نشاط اور شالمیار کے متصل چشم شاہی اور پری محل بھی مغلیہ دور کے طرز تعمیر کی اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اب ان مغل باغات کو ثقافتی ورثہ کے طور تحفظ فراہم کرنے کے لیے یونیسکو کے عالمی ثقافتی نقشے میں شامل کیا جارہا ہے ۔

اس ضمن میں جن مغل باغات کو یونیسکو میں ورثے کے طور شامل کرنے کی فہرست میں رکھا گیا یے ان میں ویری ناگ،اچھہ بل،پری محل ،چشمہ شاہی،شالیمار اور نشاط باغ کے نام قابل ذکر ہیں۔

Last Updated : Oct 18, 2020, 8:46 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.