سرینگر (جموں و کشمیر): سردیوں کی آمد اور درج حرارت میں گراوٹ کے ساتھ ہی وادی کشمیرمیں ’’ہریسہ‘‘ کی دکانوں پر گاہکوں کی بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ موسم سرما میں ہریسہ کو جہاں ایک مکل ناشتہ تصور کیا جاتا وہیں اس پکوان سے جسم میں گرمائش بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہریسہ عام طور پر سرینگر کے پائین شہر میں ہی تیار کیا جاتا ہے تاہم اب مختلف ریسٹورنٹس میں بھی دستیاب ہے۔
کشمیر میں سردیوں کا مشہور پکوان ’’ہریسہ‘‘ گوشت، چاول یا گہوں اور مختلف مصالحہ جات سے تیار کیا گیا ایک خاص پکوان ہے جو مٹی کے بڑے برتن میں بالن جلا کر تقریباً پوری رات پکایا جاتا ہے۔ موسم سرما کے دوران شدید سردی سے بچنے کے لیے درکار اضافی کیلوریز حاصل کرنے کے لیے ہریسہ کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ ہریسہ عام طور پر سرما کے چار سے پانچ ماہ ہی دستیاب رہتا ہے۔
مؤرخین کا خیال ہے کہ ہریسہ چودھویں صدی کے دوران کشمیر میں متعارف ہوا تھا اور سرینگر کا شہر خاص تقریباً دو صدیوں سے زائد عرصہ سے اس کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن کے عالی کدل، فتح کدل اور صفا کدل جیسے علاقوں میں اس کاروبار سے جڑے بعض خاندان گزشتہ دو ہائیوں سے گاہکوں کو ہریسہ پروس رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سرینگر:کشمیر میں بھی حیدرآبادی حلیم دستیاب
سرینگر کے فتح کدل علاقے سے تعلق رکھنے والے ہریسہ فروش محمد شفیع بٹ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ وہ جس دکان پر ہریسہ فروخت کر رہے ہیں وہ قریب 150سال پرانی ہے، جہاں ان کے آباء و اجداد بھی لوگوں کو ہریسہ فروخت کرتے تھے۔ محمد شفیع نے کہا: ’’مجھ سے قبل میرے والد اور دادا اس (دکان) کے مالک تھے اور اسی دکان پر ہریسہ تیار کرکے اسے فروخت کرتے تھے۔ میں گزشتہ 40 برسوں سے اس کے ساتھ منسلک ہوں۔‘‘ تاہم محمد شفیع کا ماننا ہے کہ نئی نسل اس کو زیادہ ترجیح نہیں دے رہی کیونکہ ہریسہ تیار کرنا ’’جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔‘‘ اس میں کافی زیادہ محنت لگتی ہے۔
ہریسہ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’ہریسہ میں بکرے کا نہیں بلکہ بھیڑ کے گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں بڑی مقدار میں مصالحے کی ضرورت پڑتی ہے۔ گوشت کو ہڈیوں سے الگ کرکے اسے تقریباً رات بھر پکایا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہریسہ نہ صرف ایک لذیذ غذا ہے بلکہ یہ پکوان کشمیری کی تاریخ اور ثقافت کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے اور ہم اس کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔