پانچ اگست 2019 کے بعد ان سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو حکومت نے نظر بند کر دیا تھا اور رہائی کے بعد انہوں نے اکتوبر 2020 میں گُپکار ڈکلیریشن میں کہا کہ وہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لانے کے لیے منظم طریقے سے پُرامن تحریک کا آغاز کریں گے۔
اس اتحاد سے عوام میں دوبارہ اعتماد پیدا ہونے لگا کہ یہ سیاسی جماعتیں دفعہ 370 اور 35 اے کی واپسی کے لیے ایک ساتھ لڑیں گی۔ لیکن جب نومبر 2020 میں جموں و کشمیر میں ڈی ڈی سی انتخابات منعقد ہوئے تو پیپلز الائنس فار گُپکار ڈکلیریشن(پی اے جی ڈی) میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔ انتخابات کے چند ماہ بعد ہی سجاد لون کی پیپلز کانفرنس اس اتحاد سے الگ ہوگئی۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد پی اے جی ڈی کی اکائیوں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے میٹنگ کے بعد بیانات متضاد تھے۔ جس سے ان پر کئی سوالات کھڑے ہوئے اور اتحاد اتنا بکھرنے لگا کہ ان کے لیڈران نے ہی اس الائنس کو نشانہ بنایا۔
تاہم الائنس نے عوام کو متحد ہونے کی یقین دہانی کرائی اور باور کیا کہ الائنس دفعہ 370 کو واپس لانے کے لیے جدو جہد جاری رکھے گا۔ یقین دہانی اپنی جگہ لیکن بی جے پی اس اتحاد کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اپنے سیاسی اغراض اور اقتدار میں آنے کے لیے دفعہ 370 کو واپس لانے کے کھوکھلے دعوے کر رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی اے جی ڈی نے دفعہ 370 کی بحالی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے بیانات اور سیاسی سرگرمیوں سے پانچ اگست کی صورتحال کو نارملائیز (normalise) کیا ہے۔