فاروق عبداللہ سے ملنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے آزاد کا کہنا تھا کہ 'سب سے پہلے مرکزی سرکار کو تمام نظربند سیاسی رہنماؤں کو رہا کیا جائے- اس کے بعد کی مستقبل کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ جس ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ حراست میں ہوں وہاں کیسی جموریت ہو سکتی ہے؟'
اُن کا کہنا تھا کہ وہ فاروق عبداللہ سے اپنے ذاتی رشتے کے تحت ملنے آئے تھے اور جن اراکین پارلیمان نے اُن کی رہائی کے لیے جد و جہد کی تھی اُن کے بارے میں فاروق صاحب کو جانکاری دینے آئے ہیں۔
آزاد نے دعویٰ کیا کہ وہ فاروق عبداللہ کو سات مہینے سے زائد عرصے تک نظر بند رکھنے کی وجہ نہیں جانتے اور نا ہی اس بات کی کوئی علمیت ہے کہ اُن کا کیا قصور تھا۔
جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں دوبارہ سے شروع ہونے کے تعلق سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم جموں و کشمیر کی خوشحالی چاہتے ہیں تو مرکزی سرکار کو تمام سیاسی لیڈران کو رہا کرنا ہوگا تبھی یہاں سیاسی سرگرمیاں ممکن ہو پائیں گی۔'
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'اپنی پارٹی جیسی جماعتیں یہاں کامیاب نہیں ہونگی۔'
مرکزی سرکار کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹائے جانے کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'جموں و کشمیر میں ترقی کا کوئی بھی کام نہیں ہو رہا۔ سیاحت اور دستکاری ختم ہو چکی ہے۔ جموں خطے کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کا ایک ہی حال ہے تمام سیاسی لیڈران کی رہائی اور جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دینا۔'
واضع رہے کہ غلام نبی آزاد آج دوپہر ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے ملنے دہلی سے آئے تھے۔ فاروق عبداللہ کو تقریباً سات مہینے بعد گزشتہ روز رہا کیا گیا۔ جس کے بعد اُنہونے میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُن کی آزادی تب تک مکمل نہیں ہے جب تک کشمیر کے تمام سیاسی لیڈران کی رہائی عمل میں لائی جائے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک لیڈران رہا نہیں ہونگے تب تک وہ کوئی بیان نہیں دیں گے۔