یوں تو وادی کشمیر پوری دنیا میں اپنے موزوں موسم اور خوبصورتی کے لیے جانا جاتا ہے تاہم گزشتہ ایک دہائی سے یہاں کے موسم میں کافی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف یہاں کے تودائے یخ (گلیشئر) پگھلتے جا رہے ہیں وہی موسمِ گرما میں درجے حرارت 35 ڈگری سیلسیس سے اوپر ہی رہ رہا ہے۔
جہاں ایک طرف عوام شدت کی گرمی کی وجہ سے پریشان ہیں وہیں غیر یقینی موسم بھی باشندگان کے لیے مُشکِل کا باعث بن رہا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ درختوں کی بے تحاشا کٹائی اور انڈسٹری لزیشن کی وجہ سے ماحولی توازن پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کشمیر کے تھجواس تودائے یخ میں گزشتہ تین برسوں میں 50 میٹر کی کمی آئی ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی کے جیو انفارمیٹکس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان رشید کا کہنا تھا کہ "جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ تودائے یخ ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں گرمی کی درجہ حرارت بڑ رہی ہے، جس وجہ سے موسم سرما کے دوران جتنی برفباری یہاں ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے تودائے یخ کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'اس وجہ سے ہمارے سامنے دو بڑی پریشانیاں سامنے آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسرا برف کی صورت تبدیل ہو رہی ہے۔ خطے میں موجود 14000 تودائے یخ پگھل رہے ہیں۔'
کشمیر کے مشہور تودائے یخ کے حولے سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 'کولاہی ہر برس 56 میٹر کم ہو رہا ہے، تھجواس میں بھی 50 میٹر کی کمی آئی ہے اس طرح دیگر تودائے یخ بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری معاشیات پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ہماری ایکونومی پانی پر مبنی ہے اور جب پانی میں کمی ہوگی تو ذرات، توریسم سب پر اثر پڑےگا۔'